’یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ سبھی پاکستانی طالب علم برطانوی شہریت کے طلبگار ہیں‘، تصویر کا دوسرا رُخ
برطانوی تعلیمی ادارے دنیا بھر میں اپنی ایک معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ یہاں کی تعلیم ایک ایسا مضبوط ستون سمجھی جاتی ہے جس پر ایک طالب علم اپنے مستقبل کی شاندار عمارت تعمیر کر سکتا ہے۔
اگر برطانیہ کے تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو اس کی قدر و منزلت دنیا میں آج بھی وہی ہے، مگر گذشتہ چند برسوں میں یہاں کےنجی تعلیمی اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
'برطانیہ میں پاکستانی طالب علموں کا مستقبل' کے عنوان سے چھپنے والی پچھلی رپورٹ پڑھنے کے بعد ایک اور پاکستانی طالب علم نے بتایا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ سبھی پاکستانی طالب علم برطانوی شہریت کے طلبگار ہیں۔
یاسر نامی اس طالب علم نے تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہوئے بتایا کہ دو سال قبل اپنے والدین سے بہت ضد کرنے کے بعد اُنھوں نے لندن کے'سٹی بزنس کالج' میں بزنس انڈر گریجوٹ کے تین سالہ کورس میں داخلہ حاصل کیا۔
گھر کا بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے والدین نے اُن کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے اُنھیں خود سے اتنی دور بھجنے کی حامی بھری۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُن کا کالج مرکزی لندن میں واقع تھا، جہاں دیگر نجی کالجوں کی طرح ہفتے میں صرف دو ہی روزکلاس ہوا کرتی تھی۔
اُن کے الفاظ میں: ’میں نے خود کو کلاس کا ہونہار طالب علم ثابت کرنے کے لیے ابتدا سے ہی سخت محنت کرنی شروع کردی تھی، جبکہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک جز وقتی ملازمت بھی کر رہا تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ پہلے سال کے دو سیمسٹر پاس کر چکا تھا کہ ایک روز جب وہ کالج پہنچے تو باہر بہت سے پریشان حال طالب علموں کا مجمع نظر آیا۔ معلوم ہوا کہ گذشتہ رات کالج کو برطانوی بارڈر ایجنسی کے حکم پر تالا لگا دیا گیا ہے۔ تمام کالج انتظامیہ غائب تھی اساتذہ اور پرنسپل کا فون بند مل رہا تھا۔
’ہم سب ہی اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب ہمارا کیا ہوگا؟‘
کچھ ہی دنوں پہلے میں نے کالج میں اپنی سہ ماہی فیس 1300 پونڈ جمع کرائی تھی۔ لہذا، کالج کے بند ہوجانےسے نہ صرف میری پڑھائی رک گئی تھی، ساتھ ہی 1300 پونڈ کا نقصان بھی ہوا تھا۔ جبکہ، انھی دنوں میں نے اپنا پاسپورٹ 'ویزہ معیاد' بڑھانے کے لیے برطانوی ویزا سروس کو بھیجا ہوا تھا۔
’کالج انتظامیہ خفیہ طریقے سے لڑکوں کو سرٹیفیکٹ اور دوسرے ضروری دستاویزات فروخت کررہی تھی۔ میں نے بھی 200 پونڈ ادا کرکے 'پروگریس سرٹیفکٹ'حاصل کیا ،جس کی بنا پر مجھےایک نجی 'ایکسن کالج' میں سہ ماہی ٹیوشن فیس ادا کرنے پرداخلہ مل گیا۔
نئے کالج میں پڑھتے ہوئے صرف ایک ماہ کا عرصہ گذرا تھا کہ ایک روز بہت سے کالجوں کے ساتھ یہ کالج بھی بند کردیا گیا۔ اس نئی صورت حال پر میرے ہوش اڑ گئے۔ کالج انتظامیہ فرار ہوچکی تھی اور رابطے کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔اس کالج میں مجھے800 پونڈ کا نقصان ہوا۔
اپنے ایک واقف کار کے توسط سے'ایم او آئی کالج' میں ایک کم مدت کےنسبتاً سستے ڈپلومہ کورس میں تیسری بار داخلہ حاصل کیا، جو کہ، میری ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ اس کالج میں بامشکل ایک ماہ کا عرصہ گذرا تھا کہ حکومت نے اس کو بھی بند کردیا، جبکہ کالج کے پاس میرے 400 پونڈ کی رقم ٹیوشن فیس کی مد میں موجود تھی۔
انہی دنوں برطانوی ویزا ایجنسی کی جانب سے مجھےخط ملا کہ آپ کا کالج بند ہو چکا ہے، لہذا ایک ماہ کے اندر آپ کو ملک چھوڑنا ہو گا۔
اس خط کے ساتھ ہی میرے اعصاب نے بھی جواب دے دیا۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خواب اب ایک بھیانک حقیقت کے روپ میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ تبھی میرے ایک رشتہ دار نے میری ہمت بندھائی اور میں نے ایک آخری جنگ لڑنے کی ٹھانی۔
اپنے ساتھ ہونے والی اس بے انصافی کے خلاف میں نے ایک وکیل سے مشورہ کیا۔ 1000 پونڈ فیس کی عوض اس نے میرا مقدمہ لڑنےکی حامی بھری۔ سماعت والے روز جج نےفیصلہ سناتے ہوئے مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ایک اور موقع دیئے جانے کا حکم سنایا، جبکہ بارڈر ایجنسی کی جانب سے 7000 پونڈ کی رقم بنک کے نجی کھاتے میں سال بھر کے خرچ کی مد میں دکھانے کی شرط عائد کی گئی تھی۔
اس سوال پر کہ 'بی گریڈ' رکھنے والے نجی ادروں کا انتخاب کیوں کیا، اُن کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہوئے حالات کے ہاتھوں مجبور تھے۔
اُن کے الفاظ میں: 'آپ یوں سمجھیں کہ یہ اُن کا بچھایا ہوا ایک جال ہوتا ہے جس میں حالات کے ستائے ہوئے میرے جیسے طالب علم پھنس جاتے ہیں‘۔
اپنی تقدیر کو چوتھی بار آزمانے کے لیے انھوں نے 'ولسن کالج 'میں داخلہ لیا، جس کا شمار درجہ اول کے کالجوں میں ہوتا ہے۔ داخلے کی شرط کے مطابق اس بار مجھے انگریزی زبان کا ایک ٹیسٹ 'بی ٹو' بھی پاس کرنا پڑا۔ میرے گھر والوں اور برطانیہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کی مدد سےمیں نے نہ صرف کالج فیس جمع کرائی بلکہ ،اپنے کھاتے میں 7000 پونڈ کی رقم بھی ظاہر کی۔
اسی کالج کے'کیس لیٹر' پر اکتوبر 2011 ءمیں نئے ویزے کی درخواست ڈالی تھی۔ ویزا کی فیس 400 پونڈ ہوتی ہے جو اب تک دو بار ادا کر چکا ہوں۔ ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے، میری ویزا درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا، جبکہ کالج ویزے کے بغیرمجھے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اور اسی دوران کلج نے کئی بار مجھ سے مزید فیس کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
لندن میں' اسٹوڈنٹس فیس ریکوری ' کے نام سے ادارہ کام کر رہا ہے، جہاں نوید اکبر بیرون ملک کے ایسے طالب علموں کی بلامعاوضہ خدمت کررہے ہیں جن کے کالج بند ہو جانے کے باعث ان کی ٹیوشن فیس کالج انتطامیہ نے ہڑپ کرلی ہے۔
'وی او اے' سے بات چیت کرتے ہوئے، نوید اکبر نے بتایا کہ ان کے پاس دیار غیر میں لٹنے والے طالب علموں کی داستانوں سے فائلیں بھری پڑی ہیں۔
ایسے طالب علم جب ہم سے اپنی فیس کی واپسی کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو ہم انھیں قانونی مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں اور ایک اچھا وکیل ان کی جانب سےکالج کے خلاف کورٹ میں مقدمہ بھی لڑتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا 'کالج مالکان تک رسائی کے لیے ہم ان کی کمپنی اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہیں اور انھیں کورٹ کاروائی میں شریک ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ کئی کالج مالکان نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ہم سے کورٹ میں معافی مانگی ہے اور ہم نے طالب علموں کو ان کی فیس بھی واپس دلوائی ہے۔'
ہمارے ادارے نے طالب علم پر ہونے والی اس زیادتی کے خلاف مقامی میڈیا کے علاوہ پاکستانی میڈیا پر بھی آواز اٹھائی ہے۔ برطانوی بارڈر ایجنسی کو بھی کئی بار اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے کہا ہے۔ انھوں نےکہا کہ طالب علم مقدمہ بازی سے گھبراتے ہیں۔ اُن کے بقول،’ہم ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں ہم جو ضابطہ کی کاروائی کرتے ہیں اس کا برطانوی بارڈر ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم یہاں حق دار تک اس کا حق پہنچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں‘۔
اگر برطانیہ کے تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو اس کی قدر و منزلت دنیا میں آج بھی وہی ہے، مگر گذشتہ چند برسوں میں یہاں کےنجی تعلیمی اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
'برطانیہ میں پاکستانی طالب علموں کا مستقبل' کے عنوان سے چھپنے والی پچھلی رپورٹ پڑھنے کے بعد ایک اور پاکستانی طالب علم نے بتایا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ سبھی پاکستانی طالب علم برطانوی شہریت کے طلبگار ہیں۔
یاسر نامی اس طالب علم نے تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہوئے بتایا کہ دو سال قبل اپنے والدین سے بہت ضد کرنے کے بعد اُنھوں نے لندن کے'سٹی بزنس کالج' میں بزنس انڈر گریجوٹ کے تین سالہ کورس میں داخلہ حاصل کیا۔
گھر کا بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے والدین نے اُن کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے اُنھیں خود سے اتنی دور بھجنے کی حامی بھری۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُن کا کالج مرکزی لندن میں واقع تھا، جہاں دیگر نجی کالجوں کی طرح ہفتے میں صرف دو ہی روزکلاس ہوا کرتی تھی۔
اُن کے الفاظ میں: ’میں نے خود کو کلاس کا ہونہار طالب علم ثابت کرنے کے لیے ابتدا سے ہی سخت محنت کرنی شروع کردی تھی، جبکہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک جز وقتی ملازمت بھی کر رہا تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ پہلے سال کے دو سیمسٹر پاس کر چکا تھا کہ ایک روز جب وہ کالج پہنچے تو باہر بہت سے پریشان حال طالب علموں کا مجمع نظر آیا۔ معلوم ہوا کہ گذشتہ رات کالج کو برطانوی بارڈر ایجنسی کے حکم پر تالا لگا دیا گیا ہے۔ تمام کالج انتظامیہ غائب تھی اساتذہ اور پرنسپل کا فون بند مل رہا تھا۔
’ہم سب ہی اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب ہمارا کیا ہوگا؟‘
کچھ ہی دنوں پہلے میں نے کالج میں اپنی سہ ماہی فیس 1300 پونڈ جمع کرائی تھی۔ لہذا، کالج کے بند ہوجانےسے نہ صرف میری پڑھائی رک گئی تھی، ساتھ ہی 1300 پونڈ کا نقصان بھی ہوا تھا۔ جبکہ، انھی دنوں میں نے اپنا پاسپورٹ 'ویزہ معیاد' بڑھانے کے لیے برطانوی ویزا سروس کو بھیجا ہوا تھا۔
’کالج انتظامیہ خفیہ طریقے سے لڑکوں کو سرٹیفیکٹ اور دوسرے ضروری دستاویزات فروخت کررہی تھی۔ میں نے بھی 200 پونڈ ادا کرکے 'پروگریس سرٹیفکٹ'حاصل کیا ،جس کی بنا پر مجھےایک نجی 'ایکسن کالج' میں سہ ماہی ٹیوشن فیس ادا کرنے پرداخلہ مل گیا۔
نئے کالج میں پڑھتے ہوئے صرف ایک ماہ کا عرصہ گذرا تھا کہ ایک روز بہت سے کالجوں کے ساتھ یہ کالج بھی بند کردیا گیا۔ اس نئی صورت حال پر میرے ہوش اڑ گئے۔ کالج انتظامیہ فرار ہوچکی تھی اور رابطے کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔اس کالج میں مجھے800 پونڈ کا نقصان ہوا۔
اپنے ایک واقف کار کے توسط سے'ایم او آئی کالج' میں ایک کم مدت کےنسبتاً سستے ڈپلومہ کورس میں تیسری بار داخلہ حاصل کیا، جو کہ، میری ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ اس کالج میں بامشکل ایک ماہ کا عرصہ گذرا تھا کہ حکومت نے اس کو بھی بند کردیا، جبکہ کالج کے پاس میرے 400 پونڈ کی رقم ٹیوشن فیس کی مد میں موجود تھی۔
انہی دنوں برطانوی ویزا ایجنسی کی جانب سے مجھےخط ملا کہ آپ کا کالج بند ہو چکا ہے، لہذا ایک ماہ کے اندر آپ کو ملک چھوڑنا ہو گا۔
اس خط کے ساتھ ہی میرے اعصاب نے بھی جواب دے دیا۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خواب اب ایک بھیانک حقیقت کے روپ میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ تبھی میرے ایک رشتہ دار نے میری ہمت بندھائی اور میں نے ایک آخری جنگ لڑنے کی ٹھانی۔
اپنے ساتھ ہونے والی اس بے انصافی کے خلاف میں نے ایک وکیل سے مشورہ کیا۔ 1000 پونڈ فیس کی عوض اس نے میرا مقدمہ لڑنےکی حامی بھری۔ سماعت والے روز جج نےفیصلہ سناتے ہوئے مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ایک اور موقع دیئے جانے کا حکم سنایا، جبکہ بارڈر ایجنسی کی جانب سے 7000 پونڈ کی رقم بنک کے نجی کھاتے میں سال بھر کے خرچ کی مد میں دکھانے کی شرط عائد کی گئی تھی۔
اس سوال پر کہ 'بی گریڈ' رکھنے والے نجی ادروں کا انتخاب کیوں کیا، اُن کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہوئے حالات کے ہاتھوں مجبور تھے۔
اُن کے الفاظ میں: 'آپ یوں سمجھیں کہ یہ اُن کا بچھایا ہوا ایک جال ہوتا ہے جس میں حالات کے ستائے ہوئے میرے جیسے طالب علم پھنس جاتے ہیں‘۔
اپنی تقدیر کو چوتھی بار آزمانے کے لیے انھوں نے 'ولسن کالج 'میں داخلہ لیا، جس کا شمار درجہ اول کے کالجوں میں ہوتا ہے۔ داخلے کی شرط کے مطابق اس بار مجھے انگریزی زبان کا ایک ٹیسٹ 'بی ٹو' بھی پاس کرنا پڑا۔ میرے گھر والوں اور برطانیہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کی مدد سےمیں نے نہ صرف کالج فیس جمع کرائی بلکہ ،اپنے کھاتے میں 7000 پونڈ کی رقم بھی ظاہر کی۔
اسی کالج کے'کیس لیٹر' پر اکتوبر 2011 ءمیں نئے ویزے کی درخواست ڈالی تھی۔ ویزا کی فیس 400 پونڈ ہوتی ہے جو اب تک دو بار ادا کر چکا ہوں۔ ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے، میری ویزا درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا، جبکہ کالج ویزے کے بغیرمجھے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اور اسی دوران کلج نے کئی بار مجھ سے مزید فیس کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
لندن میں' اسٹوڈنٹس فیس ریکوری ' کے نام سے ادارہ کام کر رہا ہے، جہاں نوید اکبر بیرون ملک کے ایسے طالب علموں کی بلامعاوضہ خدمت کررہے ہیں جن کے کالج بند ہو جانے کے باعث ان کی ٹیوشن فیس کالج انتطامیہ نے ہڑپ کرلی ہے۔
'وی او اے' سے بات چیت کرتے ہوئے، نوید اکبر نے بتایا کہ ان کے پاس دیار غیر میں لٹنے والے طالب علموں کی داستانوں سے فائلیں بھری پڑی ہیں۔
ایسے طالب علم جب ہم سے اپنی فیس کی واپسی کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو ہم انھیں قانونی مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں اور ایک اچھا وکیل ان کی جانب سےکالج کے خلاف کورٹ میں مقدمہ بھی لڑتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا 'کالج مالکان تک رسائی کے لیے ہم ان کی کمپنی اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہیں اور انھیں کورٹ کاروائی میں شریک ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ کئی کالج مالکان نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ہم سے کورٹ میں معافی مانگی ہے اور ہم نے طالب علموں کو ان کی فیس بھی واپس دلوائی ہے۔'
ہمارے ادارے نے طالب علم پر ہونے والی اس زیادتی کے خلاف مقامی میڈیا کے علاوہ پاکستانی میڈیا پر بھی آواز اٹھائی ہے۔ برطانوی بارڈر ایجنسی کو بھی کئی بار اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے کہا ہے۔ انھوں نےکہا کہ طالب علم مقدمہ بازی سے گھبراتے ہیں۔ اُن کے بقول،’ہم ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں ہم جو ضابطہ کی کاروائی کرتے ہیں اس کا برطانوی بارڈر ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم یہاں حق دار تک اس کا حق پہنچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں‘۔