یوکرین میں پھنسے پاکستانی طلبہ؛ 'پہلے کہا جاتا تھا یہیں رہیں اب کہہ رہے ہیں چلے جائیں'

روس کے حملے کے دارالحکومت کیف میں یوکرینی فوج نے اہم سرکاری عمارتوں کی جانب جانے والے راستے بند کر رکھے ہی۔

'ایک بار پھر سے فضائی حملے شروع ہو گئے ہیں، ہر جانب سے سائرن کی آوازیں آ رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمیں اب محفوظ مقامات اور بنکرز کی جانب دوڑ کر اپنی جان بچانا ہو گی۔"

یہ کہنا ہے امیر حمزہ کا جو پاکستان کے علاقے دیر سے یوکرین میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے گئے تھے لیکن روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے اب وہ خارکیف میں محصور ہیں۔

صبح سویرے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ کے حوالے سے حمزہ کا کہنا تھا کہ طلبہ کو کہا گیا کہ وہ یوکرین کے شہر ترنوپل چلے جائیں، جہاں سے اُن کی بحفاظت واپسی کے انتظامات کیے جائیں گے۔ لیکن سفارت خانے نے یہ نہیں بتایا کہ وہاں جانا کیسے ہے؟کیوں کہ باہر تو راستے بند ہیں، کوئی ایسی ٹرانسپورٹ سروس نہیں ہے جو ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جا سکے۔

وائس آف امریکہ سے ان طلبہ کا رابطہ ٹوئٹر کے ذریعے ہوا جو پاکستانی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر گلہ کر رہے تھے کہ سینکڑوں طلبہ کے رابطہ کرنے کے باوجود سفارت خانہ جواب کیوں نہیں دے رہا؟

روس کے یوکرین پر حملے کے باعث یوکرین کے رہائشیوں کی طرح پاکستانی طلبہ نے بھی رات میٹرو اسٹیشن کے انڈر گراونڈز میں بسر کی یا پھر خارکیف کی میڈیکل یونیورسٹی ہاسٹلز کی بیسمنٹ میں پناہ لی۔ حمزہ کے مطابق رات بھر جاری رہنے والی فائرنگ، دھماکوں کی گونج نے انہیں سونے نہیں دیا۔ ان سمیت تمام افراد جن کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں خوف کے سبب جاگتے رہے کہ کب کیا ہو جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

یوکرین میں پھنسے پاکستانی طلبہ: 'ہم میٹرو اسٹیشن پر لاوارث پڑے ہیں'

ان طلبہ کے ذریعے پہنچنے والے سب وے اسٹیشن کے مناظر خاصے تشویش ناک ہیں عام دنوں میں اس جگہ سفر کرنے والوں کا اتنا رش نہیں ہوتا جتنا اس وقت پناہ لینے والوں کا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا سے آنے والی خبریں بھی ان محصورین کے ذہنوں کو اور بھی متاثر کر رہی ہیں۔ کئی طلبہ کے والدین اور عزیز ان سے رابطہ کر کے ان کی خیریت دریافت کر رہے ہیں اور فکرمند ہیں کہ ان کے بچے زندہ سلامت اپنے وطن لوٹ آئیں۔

مہران کا تعلق بھی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے ان کے مطابق اس وقت خارکیف میں ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ پھنسے ہوئے ہیں۔ مہران نے بھی میٹرو اسٹیشن میں پناہ لے رکھی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مہران کا کہنا تھا کہ اس وقت یہاں پانی اور خوراک کی قلت ہے اور یہ جگہ ہی اس وقت ہمارے لیے محفوظ ہے، لیکن ہم جو ذہنی دباؤ برداشت کر رہے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہے۔

میڈیکل کے طالبِ علم عمیر کے تاثرات بھی باقی طلبہ سے مختلف نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستانی سفارت خانے سے بار بار رابطے کی کوشش کی، لیکن ابھی تک کوئی کال نہیں آئی اور نہ ہی کسی پیغام کا جواب دیا گیا ہے۔

اُن کے بقول "ہم پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ ایئرپورٹ بند ہیں، باہر جنگ ہو رہی ہے اور کوئی کہیں بھی جانے سے قاصر ہے، ہم صرف اپیل کر سکتے ہیں کہ طلبہ کی بحفاظت واپسی یقینی بنائے جائے۔

ہاسٹلز کی بیسمنٹ میں پناہ لینے والے میڈیکل کے طالبِ علم محمد ابصام کے مطابق جنگ چھڑنے سے قبل ہی طلبہ خوف کا شکار تھے اور پاکستان لوٹنا چاہتے تھے۔ لیکن اس وقت بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

روس کے ساتھ تنازع: یوکرین میں بچے نفسیاتی مسائل کا شکار

اُن کے بقول اب جب گولہ باری جاری ہے تو سوائے ہاسٹل اور میٹرو اسٹیشن میں پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے کی قلت کے ساتھ اب پانی بھی ناپید ہوچکا ہے۔ ہمارے گھروں سے مسلسل فون کالز آ رہی ہیں جو بے حد پریشان ہیں کہ ہم کیسے اور کب لوٹیں گے؟

طلبہ کی سب سے بڑی تشویش اس وقت یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں جنگ ہے اور اگلے لمحے کا نہیں پتہ کہ کب کیا ہو جائے؟

یوکرین میں پاکستانی سفارت خانے کا مؤقف

یوکرین میں پاکستان کے سفیر میجر جنرل (ر) نوئل اسرائیل کھوکھر نے ایک ویڈیو پیغام میں طلبہ سے کہا ہے کہ وہ خود بھی ابھی کیف میں موجود ہیں، لہذٰا طلبہ اپنی یونیورسٹیز میں ہی قیا م کریں اور پڑھائی پر توجہ دیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوئے تو ایسے انتظامات کیے گئے ہیں جن سے بروقت طلبہ کو آگاہ کر دیا جائے ، لہذٰا گھبرانے کے بجائے طلبہ تسلی رکھیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد احتشام احسان چار ماہ قبل یوکرین میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے پہنچے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب کشیدگی بڑھ رہی تھی تو اس وقت اُنہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے کہا تھا کہ اُنہیں وطن واپس جانے دیں، جب حالات ٹھیک ہوں گے تو وہ واپس آ جائیں گے۔

اُن کے بقول یونیورسٹی انتظامیہ نے اُن سے کہا کہ جن طلبہ کے پاس رہائش کے عارضی پرمنٹ نہیں ہیں، اگر وہ ملک سے گئے تو اُن کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے پاکستانی سفارت خانے کے اہلکاروں کو بلا کر بھی ہمیں تسلی دلائی کہ حالات زیادہ خراب ہوئے تو طلبہ کی مدد کی جائے گی۔

احتشام احسان کہتے ہیں کہ اب وہی یونیورسٹی انتظامیہ اُن سے کہہ رہی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے، آپ محفوظ مقام پر متنقل ہو جائیں یا اپنے ملک واپس چلے جائیں، لیکن اب ایئرپورٹ اور دیگر ٹرانسپورٹ بند ہے جب کہ باہر صرف فوج کے پہرے ہیں۔ ایسے میں ہم جائیں تو کہاں جائیں؟

احتشام کو یہ بھی خدشہ ہے کہ دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہونے سے اشیائے خورونوش کی بھی قلت ہو سکتی ہے کیوں کہ لوگوں نے افراتفری کے عالم میں زیادہ خریداری کر لی ہے۔

طالبِ علم امیر حمزہ نے وائس آف امریکہ کو کچھ تصاویر بھیجی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستانی طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر جانے کے لیے جمع ہیں۔

طالبِ علم امیر حمزہ کی جانب سے بھجوائی گئی تصویر جس میں پاکستانی طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت خارکیف سے روانہ ہو رہے ہیں۔

امیر حمزہ نے جمعے کی صبح وائس آف امریکہ کو بھجوائے گئے وائس نوٹ میں بتایا کہ علی الصبح فائرنگ اور دھماکوں میں کمی آئی، لیکن اب اچانک سے پھر حالات بگڑ گئے ہیں۔

SEE ALSO: روس یوکرین تنازع: معاملہ ہے کیا؟

اُن کے بقول جمعرات کی شب رات بھر جاگے لوگ اب نیند اور خوف سے لڑ رہے ہیں۔ ابھی خبروں سے اور دوستوں کی مدد سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ روسی ٹینک اس علاقے میں داخل ہونے والے ہیں اور ان کا کنٹرول اس شہر میں ہوجائے گا۔ لیکن یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ یوکرینی فوج نے یہاں سے پلوں کو خود تباہ کر دیا ہے تاکہ روسی افواج کا راستہ روکا جا سکے۔

امیر حمزہ کہتے ہیں کہ خبروں کا ایک سیلاب ہے جو اور پریشان کر رہا ہے۔ یہاں رہنے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ یوکرین میں ہونے والی تباہی کے سبب یوکرین کی فوج جلد ہتھیار ڈال دے گی کیونکہ اب یہاں صرف تباہی ہے اور ہم ایک جنگ زدہ ملک میں مدد کے منتظر ہیں جو نہ جانے کب ملے گی؟