خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ایک چھوٹی ورکشاپ میں درجن بھر افغان خواتین ایک ٹیچر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے جو انہیں بتا رہی تھیں کہ انہیں سلائی مشین پر کپڑے کس طرح سینے ہیں۔
ہنر سکھانے کا یہ مرکز گزشتہ برس پشاور کی 37 سالہ ماہرہ بشیر نے پڑوسی ملک افغانستان سے لوگوں کی مسلسل آمد کے پیشِ نظر قائم کیا تھا، جہاں 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے معاشی بحران اور خواتین کو بڑھتی ہوئی پابندیوں کا سامنا ہے۔
یہ تربیتی مرکز ماہرہ بشیر نے خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنانے کی کوشش کے طور پر قائم کیا تھا۔ انہوں نے ٹیلرنگ کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ہنر اور بیوٹیشن کے کورسز کے لیے ورکشاپ بھی کھولی ہے۔
ان کی اس ورکشاپ میں کام سیکھنے کے لیے فوری طور پر سینکڑوں خواتین کا اندراج ہوا اور داخلے کی منتظر خواتین کی ایک لمبی فہرست بن گئی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ماہرہ بشیر کہتی ہیں کہ اگر انہیں مدد مل جائے تو ان کے خیال میں وہ ڈھائی سو سے پانچ سو طالبات کو ایک ساتھ تربیت دے سکیں گے۔
ان کے بقول تربیت سے خواتین کو بااختیار بنایا جا سکے گا جو کمیونٹی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لاکھوں افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان پہلے ہی لگ بھگ 15 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا تھا۔ مہاجرین کی تعداد دنیا کی پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادیوں میں سے ایک ہے۔
اس کے علاوہ تخمینہ یہ بھی ہے کہ دس لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ افغان بھی پاکستان میں مقیم ہیں ۔
یہ بھی جانیے
طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین کے حقوق کی پاسداری اہم ہے: اقوام متحدہافغانستان میں خواتین کی خودکشیوں میں ’پریشان کن اضافہ‘: برطانوی اخبار طالبان نے مبینہ طور پر 100طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دبئی جانے سے روک دیاحکام کا کہنا ہے کہ خود اپنے ہی معاشی بحران سے نبردآزما پاکستان کی حکومت افغان شہریوں کی مسلسل آمد کے حوالے سے اضطراب کی شکار ہے ۔
وکلا اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں متعدد افغان باشندوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے کہ ان کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے درست قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔
خواتین کو ہنر مند بنانے کی کوششوں میں مصروف ماہرہ بشیر کہتی ہیں کہ ان کا بنیادی توجہ افغان خواتین کے لیے اس کام کو وسعت دینا میں ہے۔ انہوں نے قدامت پسند علاقے میں اپنے مواقع کو بڑھانے کے لیے کچھ پاکستانی خواتین کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا ہے۔
ان کے بقول تین ماہ کے کورس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد خواتین ایک ایک چھوٹی سی لیکن بامعنی آمدنی حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور اکثر خود اپنا کاروبار شروع کر لیتی ہیں۔
افغانستان سے پاکستان آنے والی 19 سالہ فاطمہ نے بھی اسی اکیڈمی میں تربیت حاصل کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب وہ پشاور میں ایک بیوٹی پارلر کھولنا چاہتی ہیں جس پر کہ ان کے آبائی وطن میں پابندی عائد ہے۔
فاطمہ نے کہاکہ ابھی ان کا منصوبہ گھر پر سیلون بنانے کا ہے۔ پھر بہت پیشہ ورانہ طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ میں آخر کار اپنے لیے ایک بہت بڑا سیلون کھول سکوں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹر‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔