پاکستان میں آٹھ فروری کے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے باوجود ووٹ ڈالنے والے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ان کا ووٹ اہمیت رکھتا ہے۔
دار الحکومت اسلام آباد میں نفسیات کی 22 سالہ طالبہ حلیمہ شفیق ووٹ ڈالنے والے اولین ووٹروں میں شامل تھیں انہوں نے کہا،“ میں جمہوریت پر یقین رکھتی ہوں اور میرا خیال ہے کہ میرا ووٹ اہمیت رکھتا ہے”
ایک پولنگ اسٹیشن اندر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ”میں نے اپنا ووٹ ڈالا کیوں کہ یہ میرا فرض تھا۔ میری خواہش ہے کہ حقدار پارٹی اقتدار میں آئے ۔”
12 کروڑ 80 لاکھ اہل ووٹروں کے لیے پولنگ آٹھ فروری کو مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوئی۔
ناخواندہ ووٹروں کے لیے سب سے بڑی مشکل
موقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی پاکستانی انتخابات پر اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں ووٹروں کو درپیش پریشانیوں کا ذکر کیا ہے جو خاص طور پر ملک بھر میں موبائل فون سروس معطل کرنے سے پیش آئیں۔
اخبار کے مطابق ووٹروں نے شکایت کی کہ موبائل سروس کی بندش نے انہیں اپنے مقامی پولنگ اسٹیشن کو تلاش کرنے میں مدد کے لیے پی ٹی آئی کے ایک ایپ کا استعمال کرنے سے روک دیا۔
اس کے علاوہ اخبار کے مطابق ووٹروں نے خاص طور پرکہا کہ بیلٹ بھی مبہم تھے۔ دیگر پارٹیوں اپنے تمام امیدواروں کے لیے ایک ہی نشان کا استعمال کیا تھا، جبکہ حکام نے پی ٹی آئی کے ہر امید وار کے لیے انفرادی نشان جاری کیا تھا۔ تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ یہ اقدام تحریک انصاف کے حامیوں کو الجھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
60 سالہ عبدالرشید نے جو پیشے کے لحاظ سے سنار ہیں کہا"یہ میرے لیے بھی الجھا ہوا تھا۔ بہت سارے نشانات تھے، صحیح کو تلاش کرنا مشکل تھا۔"
یہ قابل ذکر ہے کہ وہ پڑھے لکھے تھے، ملک کے بہت سے دوسرے لوگوں کے برعکس جنہیں اپنی منتخب پارٹی کے امیدوار کی شناخت کرنے کے لیے بیلٹ پر نشانات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق انتخابات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ سلوک "پولنگ سے پہلے دھاندلی" کے مترادف ہے۔
ایک ایسی قوم میں جہاں تقریباً 40 فیصد بالغ افراد ناخواندہ ہیں، بیلٹ پیپرز میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ شیر کےنشان سے لے کر تیر اور ترازو تک کے نشانات اور اسکلیز کا ایک سیٹ موجود تھا ۔
سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے پی ٹی آئی سے ان کے کرکٹ کے بلے کا نشان استعمال کرنے کا حق چھین لیا، جو خان کے شاندار اسپورٹس کیریئر کی علامت ہے۔
نتیجتاً پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر بیلٹ پیپرز پر بینگن سے لے کر بوتلوں اور بستروں تک کے نشانات کے ساتھ انتخاب لڑا۔
تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ یہ ایک اور ایسی رکاوٹ ہے جسے پی ٹی آئی کو اپنے ووٹروں سے کاٹ دینے کے لیے استعمال کیا گیا ۔
حلیمہ نے کہا،” میں ایسی حکومت چاہتی ہوں جو پاکستان کو لڑکیوں کے لیے محفوظ بنائے۔”
تجزیہ کاروں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل میں ڈالے جانے اور ان کی پارٹی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے روکے جانےکے باعث ایک خاموش مہم کے بعد کم ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کی تھی۔
ایک 40 سالہ ڈرائیو ر نے جس کانام بھی عمران خان تھا کہا،“کیا انتخابات کو اس طرح کرایا جانا چاہیے ؟ “
ان کا کہنا تھاکہ”ہر کسی کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کا حق ہے۔ آج گھر میں رہنے کا دن نہیں ہے۔ جو لوگ آج گھر بیٹھنے کا فیصلہ کریں گے وہ اپنے ساتھ ناانصافی کریں گے۔"
انتالیس سالہ کنسٹرکشن ورکر سید تصور نے کہاکہ میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے 20 منٹ پہلے پہنچا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا ووٹ اہمیت رکھتا ہے۔ "میرا واحد خوف صرف یہ ہے کہ آیا میرا ووٹ اسی پارٹی کے لیے شمار کیا جائے گا جس کے لیے میں نے اسے ڈالا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ غریبوں کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون حکومت کر رہا ہے -- ہمیں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو مہنگائی کو کنٹرول کر سکے، یہی وہ چیز ہے جو ہم جیسے لوگوں کے لیے اہم ہے،"
پہلی بار ووٹ ڈالنے والی 21 سالہ زینب اصغر نے کہا، "ہمیں نئی حکومت سے اپنےحالات کو بہتر بنانے کے حوالے سے بہت زیادہ توقعات ہیں ۔
انہوں نے کہا ،"ہر ایک ووٹ اہمیت رکھتا ہے۔"