|
فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے دیرینہ اقتصادی مشیر کو اگلا وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ اقدام واشنگٹن کے غزہ میں جنگ کے بعد کے وژن کے سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کے لیے دباؤ کے پیش نظر اٹھایاہے
ایک امریکی تعلیم یافتہ ماہر معاشیات اور سیاسی طور پر آزاد محمد مصطفیٰ، اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں ایک ٹیکنو کریٹک حکومت کی سربراہی کریں گے جو غزہ کے ایک حتمی ریاست کے درجے تک پہنچنے سے قبل ممکنہ طور پر اس کا انتظام چلا سکے گی۔
لیکن ان منصوبوں کو بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی شدید مخالفت، اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری وہ جنگ شامل ہے، جس کا بظاہر خاتمہ دکھائی نہیں دے رہا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا عباس کے قریبی اتحادی کے زیر قیادت نئی کابینہ کی تقرری، اصلاحات کے امریکی مطالبات پورے کرنے کے لیے کافی ہو گی، کیونکہ 88 سالہ عباس کا مجموعی کنٹرول برقرار رہے گا۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ کار ہانی المصری نے کہا کہ " امریکہ اور خطے کے ملک جس تبدیلی کے خواہاں ہیں ضروری نہیں کہ فلسطینی شہری بھی وہی تبدیلی چاہتے ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ "لوگ سیاست میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں، ناموں کی تبدیلی نہیں۔۔۔وہ الیکشن چاہتے ہیں۔"
المصری نے مزید کہا کہ مصطفیٰ "ایک قابل احترام اور تعلیم یافتہ شخص" ہیں لیکن انہیں مقبوضہ مغربی کنارے میں جہاں جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی پابندیاں اقتصادی بحران کی وجہ بنی ہیں، حالات بہتر بنانے کے لیے عوامی مطالبات پورے کرنے کی خاطر جدوجہد کرنا ہو گی۔
تقرری کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں، عباس نے مصطفیٰ سے کہا کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ میں انتظامیہ کو دوبارہ متحد کرنے، حکومت، سیکیورٹی سروسز اور معیشت میں اصلاحات کی قیادت کرنے اور بدعنوانی سے لڑنے کے منصوبے تشکیل دیں۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ کے بعد امریکی حکمتِ عملی کیا ہوگی ؟مصطفیٰ 1954 میں مغربی کنارے کے قصبے تلکرم میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن اور معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
وہ ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیر اقتصادیات کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ اس وقت فلسطین انویسٹمنٹ فنڈ کے چیئرمین ہیں۔
سابق وزیر اعظم محمد شتیہ نے گزشتہ ماہ یہ کہتے ہوئے اپنی حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ "غزہ کی پٹی میں نئی حقیقت" کی وجہ سے مختلف انتظامات کی ضرورت ہے۔
SEE ALSO: کیا حماس کا خاتمہ اور فلسطینی اتھارٹی کاغزہ میں اقتدارممکن ہے؟فلسطینی اتھارٹی کا قیام 1990 کے عشرے میں عبوری امن معاہدوں کے ذریعے عمل میں آیا تھا اور اسے حتمی ریاست کی جانب ایک پہلا قدم تصور کیا گیا تھا۔
لیکن امن مذاکرات بار بار ناکام ہو ئے ہیں۔
حماس نے 2007 میں عباس کی وفادار فورسز سے غزہ میں اقتدار چھین لیا تھا اور اس کے محدود اختیارات کو آبادی کے بڑے مراکز تک محدود کر دیا جو اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کا تقریباً 40 فیصد حصہ ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔