فلسطین کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کے لیے دائر درخواست پر غور کے لیے سلامتی کونسل کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو منعقد ہورہا ہے۔
سلامتی کونسل کی جانب سے فلسطینی درخواست گزشتہ ہفتہ مزید کاروائی کے لیے اس کمیٹی کو بھجوادی گئی تھی۔
فلسطینی حکام کو امید ہے کہ اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت کے حصول سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔ تاہم درخواست کو اسرائیل اور امریکہ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ پہلے ہی یہ واضح کرچکی ہے کہ قرارداد سلامتی کونسل کے سامنے منظوری کے لیے پیش ہونے کی صورت میں امریکہ اسے 'ویٹو' کردے گا۔
واشنگٹن انتظامیہ اور کئی مغربی ممالک کا اصرار ہے کہ فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کے حل کے لیے براہِ راست مذاکرات شروع کریں جن کا سلسلہ گزشتہ برس منقطع ہوگیا تھا۔
اس سے قبل اتوار کو مشرقِ وسطیٰ امن مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے چار فریقی گروپ کے نمائندوں کا ایک اجلاس برسلز میں منعقد ہوا تھا جس میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی بحالی کے طریقوں پر غور کیا گیا۔ مذکورہ گروپ امریکہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور روس پر مشتمل ہے۔
فلسطینی حکام کا موقف ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغاز فلسطینی مقبوضات میں نئی صیہونی بستیوں کی تعمیر روکے جانے سے مشروط ہے۔ فلسطینی ان علاقوں پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے سخت مخالف ہیں جنہیں وہ اپنی مجوزہ ریاست کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ روز فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے یورپی اقوام پر زور دیا تھا کہ وہ عالمی ادارے کی رکنیت کے لیے فلسطینی درخواست کی حمایت کریں۔
اسٹراس برگ میں 'کونسل آف یورپ' سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کے صدر کا کہنا تھا کہ ان کی قوم اسرائیلی "قبضہ" سے آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے اور یورپی اقوام سے اسی حمایت کی خواہاں ہے جو ان کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں ہونے والے جمہوریت پسند مظاہروں کو فراہم کی گئی۔