مغربی کنارے کے شہر رملہ میں المنارہ اسکوائر سیاسی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہے ۔ اس چوک کے مرکز میں لگے ہوئے شیروں کے مجسمے شجاعت، طاقت اور فخر کی روایتی علامتیں ہیں۔ یہاں نوجوان فلسطینی کافی پینے اور مصر یوں کے احتجاج اور صدر حسنی مبارک کے استعفے پر باتیں کرنے جمع ہوتے ہیں۔ اٹھارہ سالہ بسام جابر کہتے ہیں’’یقیناً اب زیادہ جمہوریت آئے گی، زیادہ آزادی ملے گی۔ پہلے لوگوں کو تقریر کی آزادی نہیں تھی لیکن اب آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں اور سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔‘‘
صدر مبارک کے اقتدار چھوڑنے سے پہلے، فلسطینی عہدے دار قاہرہ میں اور پورے مصر میں مظاہروں کے بارے میں خاموش تھے ۔ فلسطینیوں کے لیئے ، مسٹر مبارک بڑے اہم اتحادی تھے، اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران اور فلسطینیوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان جیسے مغربی کنارے میں فتح اور غزہ میں حماس کے درمیان ثالث کے طور پر ان کا رول اہم تھا۔ تاہم، صدر مبارک کے رخصت ہونے کے بعد، فلسطینی اتھارٹی کے عہدے دار بدلے ہوئے حالات کو قبول کر رہے ہیں۔
رملہ میں حکومت کے ترجمان غسّان خطیب کہتے ہیں’’ان تبدیلیوں کے بارے میں ہمارا رویہ مثبت ہے کیوں کہ ایسی تبدیلیاں جن سے جمہوریت آئے، مصریوں کے لیئے اور فلسطینیوں سمیت باقی تمام عربوں کے لیئے اچھی ہی ہو سکتی ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ یہ تبدیلیاں فلسطینی اسرائیلی تنازع اور فلسطینیوں کے نصب العین کے لیئے اچھی ثابت ہوں گی۔‘‘
پیر کے روز فلسطینی کابینہ نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا، اور صدر محمود عباس نے وزیرِ اعظم سلام فیاض سے کہا کہ وہ نئی حکومت تشکیل دیں۔
مسٹر مبارک کے استعفے کے ایک روز بعد، فلسطینیوں نے اعلان کیا کہ وہ ستمبر تک صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کریں گے ، جو بہت پہلے ہو جانے چاہیئے تھے۔
حماس نے غزہ میں ایسے انتخابات منعقد کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان غسّان خطیب کہتے ہیں کہ مغربی کنارے میں ہی سہی، لیکن ووٹنگ ہو گی ضرور۔’’یہ کوئی مثالی انتخاب نہیں ہو گا، لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ فلسطینی عوام اور ان کا ووٹ ڈالنے اور اپنی قیادت کے انتخاب کا حق، حماس کی صوابدید کا یرغمال بن کر رہ جائے۔‘‘
فلسطینیوں کو امید ہے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کو ملا کر ایک آزاد مملکت بنا دیں گے۔ حماس نے 2007 میں غزہ پر بزور قبضہ کر لیا تھا اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی سے علیحدگی ختم کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ مصطفیٰ برغوتی، جو فلسطینی پارلیمینٹ میں حزب اختلاف کی ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مصالحت ہو جائے۔’’جمہوریت کی آواز بہت طاقتور ہے ۔ آج فلسطین میں آپ جو سب سے بلند آواز سن رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ لوگ فتح اور حماس دونوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے درمیان اختلاف ختم کر دیں تا کہ فلسطینی متحد ہو جائیں اور جمہوری اور آزادنہ انتخاب ہوں جن میں عوام پوری طرح شرکت کریں۔‘‘
ادھر المنارہ اسکوائر میں ، 25 سالہ ابیتھل ایروش کہتی ہیں کہ اسرائیلی قبضے میں زندگی گذارنا بہت مشکل ہے، لیکن مصر میں انقلاب آنا بہت حوصلہ افزا ہے ۔ عرب دنیا میں اب جو بھی اصلاحات ہوں گی، ان کی قیادت نوجوان کریں گے۔ ’’میرے لیئے یہ بڑا ولولہ انگیز تجربہ ہے ۔ میں بہت خوش ہوں کہ بالآخر اب اس نوجوان نسل نے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم فلسطینی تو مقبوضہ علاقے میں رہ رہے ہیں، اور ہم کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔ لیکن عرب ملکوں کے پریشان حال عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، وہ جاگ گئے ہیں، اور اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ صورتِ حال ہے۔‘‘
مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو امید ہے کہ ان کی زندگی بھی بہتر ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر میں جو کچھ ہوا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب دنیا جد ید دور میں داخل ہو گئی ہے، اور آزادی اور جمہوریت کی متلاشی نئی نسل بیدار ہو گئی ہے ۔