فائلیں کسی ملازم نے نہیں، ہیکرز نے چرائیں: موساک فونسیکا

رامن فونسیکا

رامن فونسیکا نے کہا کہ اس پورے تنازع میں جو اصل جرم ہوا ہے وہ ان کی دستاویزات کی چوری ہے جس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔

پاناما کی لا فرم موساک فونسیکا نے واضح کیا ہے کہ سمندر پار کمپنیوں اور اثاثوں سے متعلق اس کی ایک کروڑ سے زائد فائلیں فرم کے کسی ملازم نے نہیں بلکہ ہیکرز نے چرائی تھیں جو بعد ازاں صحافیوں کو فراہم کی گئیں۔

کمپنی کے شریک مالک اور سربراہ رامن فونسیکا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ فرم کی دستاویزات صحافیوں کو فراہم کرنے میں کسی ملازم کا ہاتھ ہے۔

منگل کو پاناما سٹی میں خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو ایک انٹرویو میں موساک فونسیکا کے بانی سربراہ نے کہا کہ لا فرم کے آن لائن سسٹم پر ہیکنگ حملہ بیرونِ ملک سے کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے کسی ملک کا نام لینے سے گریز کیا۔

رامن فونسیکا نے کہا کہ ان کی فرم خود بھی ہیکنگ حملے سے متعلق تحقیقات کر رہی ہے جب کہ انہوں نے پاناما کے حکام کےپاس بھی دستاویزات کی چوری سے متعلق شکایت درج کرادی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دستاویزات میں موجود معلومات میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی بنیاد پر ان کی کمپنی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث قرار دی جاسکے۔

رامن فونسیکا نے کہا کہ ان کی فرم کی تمام سرگرمیاں قانون اور قواعد کے دائرے میں ہیں۔ ان کے بقول اس پورے تنازع میں جو اصل جرم ہوا ہے وہ ان کی دستاویزات کی چوری ہے جس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔

موساک فونسیکا کی ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد خفیہ دستاویزات کسی نامعلوم ذریعے سے ایک جرمن اخبارکو موصول ہوئی تھیں جس نے انہیں مزید تحقیقات اور جائزے کے لیے صحافیوں کی تنظیم 'انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس' کے حوالے کردیا تھا۔

صحافی تنظیم کے درجنوں ارکان نے ایک سال سے زائد عرصے تک ان دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد اتوار کو اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس نے عالمی سیاست میں اتھل پتھل مچادی ہے۔

رپورٹ کے مطابق موساک فونسیکا نے گزشتہ چار عشروں کے دوران کل ڈھائی لاکھ سے زائد سمندر پار کمپنیاں قائم کیں جن میں سے 15 ہزار سے زائد کمپنیاں مختلف ملکوں کے سیاست دانوں اور بااثر شخصیات کی ملکیت ہیں۔

گو کہ سمندر پار کمپنیاں خلافِ قانون نہیں لیکن عموماً اس نوعیت کے ادارے دولت چھپانے اور ٹیکس بچانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ملکوں کی بااثر شخصیات، سیاست دان حتی کہ سربراہانِ مملکت اور حکومت نے بھی پیسے کی بیرونِ ملک منتقلی اور غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے موساک فونسیکا کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔

رپورٹ کی اشاعت کے بعد کئی ملکوں کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنے اثاثوں سے متعلق صفائی پیش کرنا پڑی ہے جب کہ رپورٹ میں نام آنے پر آئس لینڈ کے وزیرِاعظم نے صدر سے پارلیمان تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کی سفارش کی ہے۔

رپورٹ کے بعد کئی ممالک میں حکومتوں نے اپنے شہریوں اور بااثر شخصیات کے بیرونِ ملک اثاثوں کی چھان بین اور ان کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا بھی اعلان کیا ہے۔