عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا میں تیزی آرہی ہے اور جمعرات کو ڈیڑھ لاکھ کیسز سامنے آئے جو ایک دن میں سب سے زیادہ تعداد ہے جبکہ ان میں سے نصف کا تعلق امریکی براعظموں سے تھا۔
عالمی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھینوم گیبرائسس نے جینوا میں اپنے صدر دفاتر سے آن لائن بریفنگ میں کہا کہ دنیا اب ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ وائرس بدستور تیزی سے پھیل رہا ہے، بدستور جان لیوا ہے اور بدستور بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، دنیا بھر میں جمعہ تک کرونا وائرس میں 85 لاکھ سے زیادہ افراد مبتلا تھے، جبکہ 4 لاکھ 53 ہزار سے زیادہ اموات ہوچکی تھیں۔
ٹیڈروس نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ سماجی فاصلے کی پابندی جاری رکھیں اور انتہائی چوکنا رہیں۔ انھوں نے کہا کہ نہ صرف امریکی براعظموں میں بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بھی بڑی تعداد میں نئے کیسز کی تصدیق ہورہی ہے۔
ادارے کے ہنگامی صورتحال سے متعلق ماہر مائیک رائن نے برازیل کی صورتحال کی جانب توجہ دلائی اور کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران وہاں کرونا وائرس سے 1230 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برازیل میں 12 فیصد متاثرین طبی عملے کے ارکان ہیں۔ انھوں نے طبی عملے کی بہادری کی تحسین کی جو مشکل حالات میں جرات سے کام کررہے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بعد کرونا وائرس سے بدترین متاثر ملک برازیل ہے جہاں پونے 10 لاکھ سے زیادہ تصدیق شدہ کیسز ہیں اور ساڑھے 47 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں علم میں آچکی ہیں۔
کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جارہی ہے لیکن اس سے وبا کی دوسری لہر کا خدشہ ہے۔ رائن نے اس کا حوالہ دیتے ہوتے کہا کہ اس معاملے میں مرحلہ وار اور سائنسی انداز میں پیشرفت بہتر ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ انتہائی احتیاط سے، مرحلہ وار اور اعدادوشمار کو دیکھ کر کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو امکانات ہیں کہ وائرس آپ کو حیران کرنے آن دھمکے گا۔
رائن نے کہا کہ کسی مقام پر نئے کیسز کی تعداد میں اضافے کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ دوسری لہر شروع ہوگئی ہے۔ ایک لہر میں دوسری پیک بھی ممکن ہوتی ہے۔ انھوں نے جرمنی، چین اور جنوبی کوریا کی تعریف کی جنھوں نے وبا سے نمٹنے کی عمدہ کوششیں کیں۔
اگرچہ کووڈ نائنٹین کی ویکسین اور دوائیں تلاش کرنے کی کوششیں دنیا بھر میں جاری ہیں، لیکن ادارے کے حکام نے خبردار کیا کہ کسی دوا کی منظوری سے پہلے بڑے پیمانے پر اس کی جانچ لازمی ہے، تاکہ ممکنہ مضر اثرات کا پتا لگایا جاسکے۔
ٹیڈروس نے کہا کہ ویکسین بنانا ناممکن نہیں ہے۔ لیکن، اس کے عام استعمال کے قابل ہونے تک کا سفر بہت مشکل ہے۔