سانحے کو گزرے دو دن گزر چکے ہیں۔ لیکن، اس واقعے کے متاثرہ افراد ابھی تک وہ خوفناک رات نہیں بھولے
کراچی کا ڈاکٹر ابوالحسن اصفہانی روڈ جہاں رابعہ فلاورز، اقرا سٹی اپارٹمنٹس اور عباس ٹاوٴن واقع ہیں، وہ بہت سے لوگوں کے لئے دہشت کی علامت بن گیا ہے۔
اتوار کی رات یہاں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر انسانیت زار و قطار رو رہی ہے۔ جن ماوٴں کے بیٹوں کو موت نے آلیا وہ تو اب صبر کرچکی ہیں۔ لیکن، ایک درجن مائیں ابھی بھی ایسی ہیں جنہیں کسی طرح قرار نہیں۔ ان کے بچے تاحال لاپتہ ہیں۔
سانحے کو گزرے دو دن گزرچکے ہیں۔ لیکن، اس واقعے کے متاثرہ افراد ابھی تک وہ خوفناک رات نہیں بھول سکے۔ ان افراد کی تعداد ایک دو نہیں سینکڑوں میں ہے۔ سرسری طور پر کہا جائے تو تقریباً 300مکانات کے رہائشوں کو اس دہشت ناک واقعہ کو بھلانے میں شائد برسوں لگیں۔
رابعہ فلاورز کے رہائشی 26سالہ سید علی تفسیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعہ کے بعد سے اب تک وہ ٹھیک سے نہیں سو سکے ہیں۔ ایک ان دیکھا خوف سا ان پر طاری رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ پہلا دھماکہ ٹھیک سات بج کر 39 منٹ پر ہوا۔ اس وقت وہ اپنے گھر میں بیٹھے لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہے تھے۔
اس دوران وحشت ناک آواز کے ساتھ ایک دھماکا ہوا جو اتنا شدید تھا کہ ان کے دونوں کان سن ہو گئے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بلڈنگ نیچے گررہی ہو۔
تفسیر نے بتایا کہ، ’دھماکے کے فوراٌ بعد میں باہر کی جانب بھاگا اور جب دھماکے کی جگہ پر پہنچا تو آگ کے اونچے اونچے شعلے نظر آرہے تھے۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آٹھ بج کر 20 منٹ پر علاقے میں پہنچیں۔ اس دوران آگ کافی شدت اختیار کر چکی تھی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
دھماکے کے بعد علاقے میں امدادی کاروائیوں کے حوالے سے تفسیر نے بتایا: ’امدادی کاروائیوں کے دوران انتہائی افسوسناک خبریں بھی سننے کو ملیں کہ جب متاثرین اپنا گھر بار چھوڑ کر اسپتالوں میں اور دیگر امدادی کاموں میں مصروف عمل تھے تو لوگوں کے گھروں سے فریج، ٹی اور دیگر قیمتی سامان چوری کرلیا گیا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ علاقے میں دھماکے کے فوراٌ بعد لائٹ چلی گئی تھی جو 24 گھنٹے بعد بحال ہوئی۔ دھماکے کی جگہ پر نصب گیس پائپ لائن بھی پھٹ گئی تھی جس کی وجہ سے آگ میں شدت پیدا ہوئی۔
علاقے کے ایک اور رہائشی افضل نے بتایا کہ متاثرہ اپارٹمنٹس خالی ہوگئے ہیں۔ بالکل اجاڑ۔ یہاں کے مکین اپنا گھر بار اور ساز و سامان چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے ہیں۔ کچھ متاثرین کو سہراب گوٹھ کچھ کو نیو رضویہ اور کچھ کو انچولی میں عارضی رہائش گاہیں دے دی گئی ہیں۔
بم دھماکے کی ایک اور عینی شاہد ندا فاطمہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ دھماکے کے وقت وہ کچھ گز کے فاصلے پر واقع ایک میڈیکل اسٹور سے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ دوائیں لے رہی تھیں کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پھر ہر
طرف اندھیرا چھا گیا۔
ندا نے بتایا کہ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ میڈیکل اسٹور کے اندر ہونے کے باوجود بارود اور اسٹور میں رکھی ہوئی کانچ کی شیشیوں کے ٹکرے ٹوٹ کر ان کے بازوؤں پر لگے۔ دھماکہ ہوتے ہی پورے علاقے کی بجلی چلی گئی۔
ندا نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں انکے گھر کے کانچ کے سارے برتن، ڈیوائیڈر، ڈنر سیٹ، کھڑکیاں اور دروازے تک توٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔
واقعے کے دو دن بعد ۔۔
متاثرہ فلیٹس میں حکو مت اور انتظامیہ کی جانب سے امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔ علاقہ مکین بھی اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ متاثرین کی امداد کے لئے مین روڈ پر متحدہ قومی موومنٹ اور مخیر حضرات کی جانب سے امدادی کیمپ بھی قائم کر دیئے گئے ہیں۔ اس دوران علاقے کی بجلی اور گیس بھی بحال ہو چکی ہے لیکن ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں کئے جاسکے۔
اتوار کی رات یہاں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر انسانیت زار و قطار رو رہی ہے۔ جن ماوٴں کے بیٹوں کو موت نے آلیا وہ تو اب صبر کرچکی ہیں۔ لیکن، ایک درجن مائیں ابھی بھی ایسی ہیں جنہیں کسی طرح قرار نہیں۔ ان کے بچے تاحال لاپتہ ہیں۔
سانحے کو گزرے دو دن گزرچکے ہیں۔ لیکن، اس واقعے کے متاثرہ افراد ابھی تک وہ خوفناک رات نہیں بھول سکے۔ ان افراد کی تعداد ایک دو نہیں سینکڑوں میں ہے۔ سرسری طور پر کہا جائے تو تقریباً 300مکانات کے رہائشوں کو اس دہشت ناک واقعہ کو بھلانے میں شائد برسوں لگیں۔
رابعہ فلاورز کے رہائشی 26سالہ سید علی تفسیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعہ کے بعد سے اب تک وہ ٹھیک سے نہیں سو سکے ہیں۔ ایک ان دیکھا خوف سا ان پر طاری رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ پہلا دھماکہ ٹھیک سات بج کر 39 منٹ پر ہوا۔ اس وقت وہ اپنے گھر میں بیٹھے لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہے تھے۔
اس دوران وحشت ناک آواز کے ساتھ ایک دھماکا ہوا جو اتنا شدید تھا کہ ان کے دونوں کان سن ہو گئے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بلڈنگ نیچے گررہی ہو۔
تفسیر نے بتایا کہ، ’دھماکے کے فوراٌ بعد میں باہر کی جانب بھاگا اور جب دھماکے کی جگہ پر پہنچا تو آگ کے اونچے اونچے شعلے نظر آرہے تھے۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آٹھ بج کر 20 منٹ پر علاقے میں پہنچیں۔ اس دوران آگ کافی شدت اختیار کر چکی تھی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
دھماکے کے بعد علاقے میں امدادی کاروائیوں کے حوالے سے تفسیر نے بتایا: ’امدادی کاروائیوں کے دوران انتہائی افسوسناک خبریں بھی سننے کو ملیں کہ جب متاثرین اپنا گھر بار چھوڑ کر اسپتالوں میں اور دیگر امدادی کاموں میں مصروف عمل تھے تو لوگوں کے گھروں سے فریج، ٹی اور دیگر قیمتی سامان چوری کرلیا گیا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ علاقے میں دھماکے کے فوراٌ بعد لائٹ چلی گئی تھی جو 24 گھنٹے بعد بحال ہوئی۔ دھماکے کی جگہ پر نصب گیس پائپ لائن بھی پھٹ گئی تھی جس کی وجہ سے آگ میں شدت پیدا ہوئی۔
علاقے کے ایک اور رہائشی افضل نے بتایا کہ متاثرہ اپارٹمنٹس خالی ہوگئے ہیں۔ بالکل اجاڑ۔ یہاں کے مکین اپنا گھر بار اور ساز و سامان چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے ہیں۔ کچھ متاثرین کو سہراب گوٹھ کچھ کو نیو رضویہ اور کچھ کو انچولی میں عارضی رہائش گاہیں دے دی گئی ہیں۔
بم دھماکے کی ایک اور عینی شاہد ندا فاطمہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ دھماکے کے وقت وہ کچھ گز کے فاصلے پر واقع ایک میڈیکل اسٹور سے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ دوائیں لے رہی تھیں کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پھر ہر
طرف اندھیرا چھا گیا۔
ندا نے بتایا کہ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ میڈیکل اسٹور کے اندر ہونے کے باوجود بارود اور اسٹور میں رکھی ہوئی کانچ کی شیشیوں کے ٹکرے ٹوٹ کر ان کے بازوؤں پر لگے۔ دھماکہ ہوتے ہی پورے علاقے کی بجلی چلی گئی۔
ندا نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں انکے گھر کے کانچ کے سارے برتن، ڈیوائیڈر، ڈنر سیٹ، کھڑکیاں اور دروازے تک توٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔
واقعے کے دو دن بعد ۔۔
متاثرہ فلیٹس میں حکو مت اور انتظامیہ کی جانب سے امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔ علاقہ مکین بھی اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ متاثرین کی امداد کے لئے مین روڈ پر متحدہ قومی موومنٹ اور مخیر حضرات کی جانب سے امدادی کیمپ بھی قائم کر دیئے گئے ہیں۔ اس دوران علاقے کی بجلی اور گیس بھی بحال ہو چکی ہے لیکن ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں کئے جاسکے۔