اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں اتوار کی شام ہونے والے طاقتور بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 48 ہو گئی ہے اور پیر کو شہر میں فضا سوگوار اور معمولات زندگی معطل رہے۔
عباس ٹاؤن میں اتوار کی شام ایک مسجد کے قریب اس وقت دھماکا کیا گیا جب لوگ نماز کے بعد باہر نکل رہے تھے۔ بم دھماکے میں ابتدائی تحقیقات کے مطابق 150 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
اس دھماکے میں لگ بھگ 150 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے اکثریت اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہے۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
تاجر تنظیموں اور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے اعلان پر شہر بھر میں کاروباری مراکز بند رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہی جب کہ تعلیمی اداروں میں بھی عام تعطیل تھی۔
ہلاک ہونے والوں کی نمازہ جنازہ پیر کی سہ پہر ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ ملک کا امن و امان تباہ کرنے والے عناصر اہل تشعیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ہزارہ شعیہ برادری پر حملے اور کراچی میں عباس ٹاؤن میں دھماکے کے لیے ایک ہی قسم کا بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
’’کوئٹہ اور کراچی والا جو ہے اس میں بہت مطابقت پائی جا رہی ہے… اور یہ شعیہ سنی فساد نہیں ہے، یہ فساد ہے ان لوگوں کے ذہن میں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
شعیہ علما کونسل نے کراچی میں کالعدم تنظیموں کے خلاف ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اُدھر وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ کی قائم کردہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور جائے وقوع سے ملنے والے شواہد کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقعہ عباس ٹاؤن میں ہونے والا دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے رہائشی عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا اور دھماکے کے بعد ان میں آگ بھڑک اُٹھی۔
گزشتہ سال ماہ محرم کے دوران بھی عباس ٹاؤن میں دھماکا کیا تھا۔
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں حالیہ مہینوں میں پرتشدد حملوں اور نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر تیزی آئی ہے اور رواں سال اب تک بم دھماکوں اور فائرنگ سے دو سو سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
عباس ٹاؤن میں اتوار کی شام ایک مسجد کے قریب اس وقت دھماکا کیا گیا جب لوگ نماز کے بعد باہر نکل رہے تھے۔ بم دھماکے میں ابتدائی تحقیقات کے مطابق 150 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
اس دھماکے میں لگ بھگ 150 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے اکثریت اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہے۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
تاجر تنظیموں اور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے اعلان پر شہر بھر میں کاروباری مراکز بند رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہی جب کہ تعلیمی اداروں میں بھی عام تعطیل تھی۔
ہلاک ہونے والوں کی نمازہ جنازہ پیر کی سہ پہر ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ ملک کا امن و امان تباہ کرنے والے عناصر اہل تشعیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ہزارہ شعیہ برادری پر حملے اور کراچی میں عباس ٹاؤن میں دھماکے کے لیے ایک ہی قسم کا بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
’’کوئٹہ اور کراچی والا جو ہے اس میں بہت مطابقت پائی جا رہی ہے… اور یہ شعیہ سنی فساد نہیں ہے، یہ فساد ہے ان لوگوں کے ذہن میں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
شعیہ علما کونسل نے کراچی میں کالعدم تنظیموں کے خلاف ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اُدھر وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ کی قائم کردہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور جائے وقوع سے ملنے والے شواہد کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقعہ عباس ٹاؤن میں ہونے والا دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے رہائشی عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا اور دھماکے کے بعد ان میں آگ بھڑک اُٹھی۔
گزشتہ سال ماہ محرم کے دوران بھی عباس ٹاؤن میں دھماکا کیا تھا۔
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں حالیہ مہینوں میں پرتشدد حملوں اور نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر تیزی آئی ہے اور رواں سال اب تک بم دھماکوں اور فائرنگ سے دو سو سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔