مہدی محمد کرامی کی زندگی کے لیے ان کے والدین کی اپیل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں پر کم از کم 26 افراد کو پھانسی کا خطرہ ہے، یہ مظاہرے ایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد حکام کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
’میں ماشااللہ کرامی ہوں، محمد مہدی کرامی کا والد۔‘ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں والد نے کہا،جس میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔
ماشااللہ کرامی نے ایرانی میڈیا کو بتایا تھا کہ خاندان کے وکیل کو ان کے بیٹے کے کیس تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی، اور عدالت کی طرف سے مقرر کردہ وکیل خاندان کی بار بار کال کا جواب دینے میں ناکام رہا۔
انہوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا کہ وہ’’کراٹے چیمپئن‘ ‘ہے۔ اس نے قومی مقابلے جیتے ہیں اور وہ قومی ٹیم کا رکن رہا ہے۔
اپنے پیغام میں کرامی کے والد نے کہا ہے کہ میں احترام کے ساتھ عدلیہ سے کہتا ہوں، میں آپ سے التجا کرتا ہوں، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بیٹے کے مقدمے میں سزائے موت کوختم کر دیں۔
محمد مہدی کرامی کی والدہ نے بھی سزائے موت کو منسوخ کر نے کی التجا کی ہے۔
ایرانی مظاہرین کی موت کی سزاؤں پر عالمی غم و غصہ
ایران نے اس ماہ کے شروع میں دو مظاہرین کو پھانسی دی جس کے ردرعمل میں عالمی سطح پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔
ایران نے پھانسی کی سزائیں مظاہروں کے دوران معمولی جرائم پر دی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان کو اس بنا پر پھانسی کی سزا سنائی گئی کہ اس نے سڑک پر ٹائروں کو آگ لگائی تھی اور پولیس کی جانب سے کھڑی کی جانے والی ایک رکاوٹ کو ہٹایا تھا۔
ایرانی سیکیورٹی فورسز پکڑے جانے والے مظاہرین پر ’خدا کے خلاف جنگ یا بغاوت‘ کی دفعات کے تحت مقدمات کا اندراج کرتی ہے جس کی سزا موت ہے۔
مشہد میں ایک نوجوان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کھلے عام کیا گیا اور اسے ایک کرین پر لٹکا کر پھانسی دی گئی۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ان مظاہروں کے سلسلے میں اب تک 11 افراد کو سزائے موت دینےکا اعلان کیا ہے، جنہیں وہ ’فساد‘ قرار دیتا ہے اور مغرب میں موجود ’غیر ملکی دشمنوں‘ کو یہ مظاہرے بھڑکانے پر مورود الزام ٹہراتا ہے۔
حکام نے بعض مقدمات میں سیکیورٹی فورس کے ارکان کے خلاف سمیت جان لیوا تشدد کے الزام پر سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ قانونی کارروائیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ انہیں تشویش ہے کہ زیر حراست افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ملزمان کی اپنے دفاع کے حق سے محرومی
ایمنسٹی کے مطابق، کرامی ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنہیں تہران کے قریب کرج شہر میں ایک مظاہرے کے دوران بسیج ملیشیا کے ایک رکن پر مہلک حملے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس میں کہا گیا ہے کہ انہیں ’ایک ایسے تیز رفتار غیر منصفانہ گروپ ٹرائل کے آغاز کے بعد ،ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں سزا سنا دی گئی جس کی کسی بامعنی عدالتی کارروائی سے کوئی مماثلت نہیں تھی۔‘
کرامی کی عمر نہیں بتائی گئی لیکن سوشل میڈیا پراحتجاج کے حامی چینلز کی رپورٹس کے مطابق اس کی عمر 20 اور 30 سال کے درمیان ہے۔
سوشل میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کرمی کے والد کو سزائے موت کے بارے میں اپنے بیٹے کی ٹیلی فون کال پر پتہ چلا جس مٰیں ان کے بیٹے نےکہا تھا کہ ماں کو اس بارے میں نہ بتایا جائے۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ سزائے موت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے اور تین ماہ قبل مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو روکا جا سکے۔
SEE ALSO: ایران : مظاہرین کی حمایت میں سوشل میڈیا پوسٹ پر آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ گرفتار
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر ) کے مطابق، اقوام متحدہ کے مطابق، ایران نے کریک ڈاؤن میں تقریباً 14 ہزارافراد کو گرفتار کیا ہے، جب کہ ان مظاہروں میں 469 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم دسمبر کے اوائل میں ایران کے اعلیٰ سیکیورٹی عہدے دار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سیکیورٹی اہل کاروں سمیت 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دو ایرانی صحافی نیلوفر حمیدی اور الہی محمدی، جنہوں نے بالترتیب اسپتال اور مہسا کے جنازے کی رپورٹنگ کرکے امینی کے کیس کو سامنے لانے میں مدد کی تھی، ستمبر سے حراست میں ہیں۔
اس رپورٹ کے لئے معلومات ایجنسی فرانس پریس سے لی گئی ہیں۔