انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ایران میں ایک ڈاکٹر، ایک گلوکار اور ایک فٹ بالر لگ بھگ ان دو درجن ایرانیوں میں شامل ہیں جنہیں پھانسی دیے جانے کا خطرہ ہے ۔
تہران کے حکمران مظاہروں کو روکنے کے لیے سزائے موت کو ڈرانے دھمکانے کے حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ایران میں حال ہی میں دو نوجوانوں کو پھانسی دی ہے جن میں سے ایک کا نام محسن شکاری اور دوسرے کا ماجدرضا راہنورد تھا اور ان کی عمریں 30سال سے کم تھیں۔ راہنورد کو مشہد میں کھلے عام کرین سے لٹکا کر پھانسی دی گئی تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو اور وہ مظاہروں سے دور رہیں۔
ایران کی عدلیہ نے اپنی آن لائن ویب سائٹ پر کہا تھا کہ انہیں ’خدا کے خلاف جنگ یا بغاوت ‘ کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ بدھ کو عدلیہ کے ایک اور بیان میں کہا گیا تھا کہ تہران میں 400 کے لگ بھگ مظاہرین کو مختلف جرائم کے ارتکاب پر دو سے 10 سال تک قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مظاہروں میں شرکت پر سیکیورٹی فورسز نے 18 ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا ہے اور عدلیہ کے مطابق 2000 افراد پر مقدمے قائم کیے جا چکے ہیں۔
نوجوانوں کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کرنے پر عالمی سطح پر غم و غصے کے اظہار کے ساتھ مذمت کی جا رہی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ سخت ترین سزائیں قانون کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتیں۔
انسانی حقوق کے گروپس نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان سزاؤں کے خلاف عالمی سطح پر کوئی سخت کارروائی نہ کی گئی تو جیلوں میں پڑے ہوئے ان مظاہرین کو بھی پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا جنہیں ایرانی عدالتیں موت کی سزائیں سنا چکی ہے۔ ان افراد کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے جب کہ اتنی ہی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جن پرقائم کیے جانے والے مقدمات میں انہیں موت کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس گروپ کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے کہاہے جب تک ایران کو پھانسیوں کی سزا پر سیاسی قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی اس وقت تک ہمیں اجتماعی پھانسیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مظاہروں کے دوران سزائے موت کے گیارہ مقدمات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ دیگر نو مقدمات میں پکڑے گئے افراد پر ایسے جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا ہے جس پر انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مہساامینی کی ہلاکت کے خلاف ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہرے زیادہ تر پر امن رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تہران کی حکومت لوگوں کو مظاہروں میں شرکت سے باز رکھنے کے لیے انتہائی چھوٹے جرائم پر انہیں موت کی سزائیں دے رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ جن افراد کو موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں ان پر خدا کے خلاف جنگ یا زمین پر بدعنوانی اور مسلح بغاوت جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں کیونکہ ایران میں ان جرائم کی سزا موت ہے۔
ایمنسٹی نے ایک نوجوان سہند نورمحمد زادہ کا ذکر کیا ہے جسے موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس پر بغاوت کا الزام لگایا گیا ہے۔ جب کہ اس کا جرم صرف یہ ہے کہ اس نے ایک ہائی وے پر لگائی گئی رکاوٹ کو ہٹایا تھا اور ٹائروں کو آگ لگائی تھی۔
ایک اور کرد نوجوان سمن سیدی کو بھی موت کی سزا دی گئی ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک مظاہرے کے دوران پستول سے ہوا میں تین فائر کیے تھے اور انسٹا گرام پر مظاہروں کے حق میں پوسٹ شائع کی تھی۔
انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ایک 32 سالہ معروف گلوکار توماج صالحی پر جو الزامات عائد کیے گیے ہیں اس پر انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی موسیقی کے ذریعے حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔
اسی طرح ایک فٹ بالر عامر ناصر آزادانی جن کی عمر 26 سال ہے ، ان پر بھی یسے الزامات لگائے گئے ہیں ، جن کے تحت انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔