مشرقِ وسطیٰ میں 'دو ریاستی امن حل' کے فروغ کے لیے فرانس میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس شروع ہوئی۔ فرانس کے وزیر خارجہ، ژاں مارک رولت نے کہا ہے کہ ''اسرائیلی اور فلسطینیوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے''۔
اتوار کے روز افتتاحی اجلاس سےخطاب میں، اُنھوں نے کہا کہ ''ہمیں پتا ہے کہ یہ مشکل کام ہے۔ لیکن، کیا اِس کا کوئی اور متبادل ہے؟''
پیرس میں منعقدہ اِس بین الاقوامی کانفرنس میں 70 سے زائد ملکوں کے وفود شریک ہیں، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں، جِن میں مشرقی یروشلم شامل ہے، اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت کا اظہار کرنا ہے۔
نہ اسرائیل، نا ہی فلسطینی نمائندے اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم، بینجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ پیرس کا اجلاس ''بے مقصد'' اور ''دھاندلی'' کے مترادف ہے۔
گذشتہ ماہ، ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں رائے شماری کے وقت امریکہ غیر حاضر رہا، جس قرارداد میں فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر پر اسرائیل کی مذمت کی گئی۔
ماضی میں جب یہ قرارداد پیش ہوا کرتی تھی تو سلامتی کونسل کے مستقل رُکن کی حیثیت سے، امریکہ اسے ویٹو کر دیتا تھا، تاکہ اقدام کو نامنظور کیا جائے۔
اِس بار امریکی اقدام کو وائٹ ہاوس کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی موقف میں تبدیلی خیال کیا گیا، ایسے میں جب اوباما انتظامیہ اپنی آٹھ برس کی میعاد مکمل کرنے والی ہے۔
طویل مدت سے، فلسطینی یہ دلیل پیش کرتے آئے ہیں کہ اُن کے علاقوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر، جسے وہ مستقبل کی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں، ناجائز ہیں اور یہ کہ کسی حتمی امن سمجھوتے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
اسرائیل اس بات پر مصر ہے کہ 1967ء میں قبضے میں لیے گئے اس علاقے پر اُن کا قدیم زمانے سے ملکیت کا حق ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار ہی امن کی راہ میں ایک کلیدی رکاوٹ ہے۔
بستیوں کی تعمیر والے مشرقی یروشلم اور مغربی علاقے میں 500000 سے زائد اسرائیلی بستے ہیں، جسے دنیا کے زیادہ تر ممالک ناجائز خیال کرتے ہیں۔ اوباما انظامیہ نے اُنھیں ''بے جا'' قرار دیا ہے۔