پینٹاگون نے افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کے دوران طالبان کے ممکنہ حملوں کے پیشِ نظر تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
امریکہ کے ایک سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں افغانستان میں طالبان کے حملوں میں 37 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ برس فروری میں طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق یکم مئی تک افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کا انخلا ہونا تھا۔
اس معاہدے کے بعد طالبان نے امریکی فوج پر حملے روک دیے تھے۔ تاہم طالبان نے طے شدہ تاریخ پر فوج کا انخلا نہ ہونے کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق طالبان کی جانب سے اس بارے میں کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا کہ وہ یکم مئی سے دوبارہ حملوں کا آغاز کر سکتے ہیں یا نہیں۔
صدر بائیڈن 11 ستمبر 2021 تک افغانستان میں موجود 2500 امریکی فوجیوں اور دیگر 7000 اتحادی افواج کے اہلکاروں کے انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔
منگل کو پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے سیکریٹری دفاع کی جانب سے پیش بندی کے طور پر مشرقِ وسطیٰ میں کم از کم چار بی 52 بمبار طیاروں اور آرمی رینجرز کی ٹاسک فورس کے کچھ دستوں کی منتقلی کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں یہ خیال کرنا ہو گا کہ واپسی پر مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
SEE ALSO: امریکی فوج کے انخلا کے لیے کمک روانہ، سفارت خانے کے عملے کو کابل چھوڑنے کی ہدایتپینٹاگون کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہم اس بات کا دھیان نہیں رکھتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کی واپسی پر طالبان کے حملے ہو سکتے ہیں تو یہ غیر ذمہ دارانہ ہو گا۔
’اے پی‘ کے مطابق جمعرات کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے اپنے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان سے فوج کی واپسی پیچیدہ اور خطرے سے خالی نہیں ہو گی۔
گزشتہ ہفتے پینٹاگون میں پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مکینزی نے کہا تھا کہ طالبان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم انخلا کے دوران اپنی دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر افواج کی واپسی کے عمل سے متعلق تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔ البتہ متعدد دفاعی حکام نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ افغانستان سے فوج کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی افغانستان میں تعینات افواج کے انخلا کے تناظر میں لاحق خطرات کی وجہ سے کابل میں قائم اپنے سفارت خانے کے عملے سے کہا ہے کہ سفارت خانے کے وہ ملازمین جو کہیں دور سے بھی اپنا کام انجام دے سکتے ہیں، انہیں کابل چھوڑ دینا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان سے انخلا کے دوران طالبان کا ممکنہ ردِ عمل کے بارے میں سینیئر امریکی تجزیہ کار بروس رائیڈل نے اس ہفتے لکھا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ شورش پسند عناصر انخلا کے دوران خلل ڈالنے کی کوشش کریں گے یا نہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی کوشش جنگ کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
افغانستان میں طالبان کے حملے بڑھ گئے
جمعرات کو افغانستان کی تعمیر نو کے امریکی ادارے اسپیشل انسپیکٹر جنرل فور افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں افغان سیکیورٹی فورسز پر طالبان کے حملوں میں 37 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران افغان فورسز پر ’اندرونی حملوں‘ (insider attack) میں 83 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں ’اندرونی حملے‘ ان کارروائیوں کو قرار دیا گیا ہے جو افغان فورسز میں شامل ہو جانے والے طالبان کی جانب سے کی گئی ہوں۔
کانگریس کو دی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کا گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران ایسی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والا جانی نقصان رواں برس بڑی حد تک بڑھ گیا ہے۔
تاہم سیگار اے این ڈی ایس ایف کو ہونے والے جانی نقصان کی تفصیلات جاری کرنے کا مجاز نہیں کیوں کہ افغان حکومت کی درخواست پر امریکی فورسز اس معلومات کو صیغۂ راز میں رکھتی ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان سے انخلا سے انسداد دہشت گردی کے شدید خطرات درپیش ہو سکتے ہیں: جنرل مکینزیتاہم اتحادیوں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں 115 افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 39 زخمی ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ این ڈی ایس کو یکم جنوری سے یکم اپریل تک 31 ’اندرونی حملوں‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کارروائیوں سے افغان فورسز کو گزشتہ سال میں اسی مدت کے دوران کے مقابلے میں دگنا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا افغان ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کی آزمائش ہو گی کہ یہ امریکہ اور اتحادیوں کی فوجی مدد کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھنے اور افغان حکومت کا دفاع کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔