امریکی محکمۂ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے ایوانِ نمائندگان میں قانون سازوں کو بتایا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں فضا میں پرواز کرتے دکھائی دینے والے نامعلوم اجسام (یو ایف اوز) کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی 'انٹیلی جینس سب کمیٹی' نے منگل کو گزشتہ 50 برسوں کے دوران نظر آنے والے یو ایف اوز پر پہلی عوامی سماعت کی جس میں امریکی نیول انٹیلی جینس کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسکاٹ برے نے بریفنگ دی۔
پینٹاگان کے اعلیٰ عہدے دار نے 2021 میں نیوی کے پائلٹ کی جانب سے دورانِ پرواز ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو بھی دکھائی۔ ویڈیو میں ایک نامعلوم چمک دار چیز فضا میں پرواز کرتی نظر آ رہی ہے۔
اسکاٹ برے نے ویڈیو سے متعلق کہا کہ ان کے پاس اس کی کوئی وضاحت نہیں کہ اس میں نظر آنے والی چیز کیا تھی۔ ان کے بقول ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
اسکاٹ برے کے بقول "اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہم فوج کے زیرِ انتظام علاقوں، فوجی تربیت گاہوں اور فضائی حدود میں نامعلوم ایئرکرافٹس یا اڑنے والے اجسام کی تعداد میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم کوئی مفروضہ نہیں بنا رہے کہ یہ کیا چیزیں تھیں اور کیا نہیں۔"
واضح رہے کہ امریکہ میں یو ایف اوز کا معاملہ اکثر زیرِ بحث رہتا ہے اور اس پر مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جاتی ہیں۔ کوئی انہیں وہم سمجھتا ہے تو کوئی خلائی مخلوق کی موجودگی کے شواہد گردانتا ہے۔
لیکن گزشتہ سال امریکی انٹیلی جینس کی جانب سے یو ایف اوز پر ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کسی غیر انسانی مخلوق کے خلائی طیارے کی فضا میں موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ لیکن اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں کہ ملٹری پائلٹس کو درجنوں بار فضا میں نظر آنے والی نامعلوم چیزیں اصل میں کیا تھیں؟
کچھ اجسام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ڈرون یا پرندے ہوسکتے ہیں جنہیں امریکی فوج کا ریڈار سسٹم پہچان نہ سکا ہو۔ کچھ کے بارے میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ وہ چین، روس یا دیگر بین الاقوامی قوتوں کی جانب سے فوجی آلات یا ٹیکنالوجی کے تجربات ہوسکتے ہیں۔
امریکی فوج اور انٹیلی جینس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا فضا میں اکثر نظر آنے والے یہ نامعلوم اجسام امریکہ کے لیے کوئی خطرہ بن سکتے ہیں؟
ایوانِ نمائندگان میں منگل کو معاملے کی سماعت کرنے والے پینل کی صدارت کرنے والے ریاست انڈیانا کے قانون ساز آندرے کاسن نے کہا کہ نامعلوم اڑتے اجسام قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ان سے اسی تناظر میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔