پینٹاگان نے کہا ہے کہ ایران کی بحریہ کے ایک ہیلی کاپٹر نے گزشتہ ہفتے خلیج عمان میں موجود امریکہ کے ایک حملہ آور جنگی جہاز یو ایس ایس ایسیکس کے قریب تئیس میٹرز کے بےحد نزدیکی فاصلے سے پرواز کی تھی۔
وائس آف امریکہ کے لیے کارلا باب کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگان کے پریس سیکریٹری جان کربی نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا کہ ایران کا ہیلی کاپٹر ایک غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں پانی کی سطح سے صرف تین میٹر بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور اس نے یو ایس ایس ایسیکس (USS Essex) کے گرد تین بار چکر لگایا۔
جان کربی کے بقول، ''جب ایک اور مسلح فوج وہاں موجود ہے؛ اس کیس میں ایران کی نیوی نے وہاں جس انداز میں پرواز کی اس سے آپ یقیناً غلط اندازوں اور کسی نوعیت کی کشیدگی میں اضافے کا خطرہ پیدا کرتے ہیں''۔
جان کربی کے تبصرے کے جواب میں ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے، ارنا نے پینٹاگان کے ترجمان پر الزام عائد کیا کہ وہ علاقے میں امریکی فوج کی غیر قانونی موجودگی کا جواز پیش کر رہے تھے۔
امریکہ کے محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ واقعہ گیارہ نومبر کو پیش آیا۔
ایک وڈیو جو ایران کے ٹیلی گرام چینلز پر گردش کر رہی ہے اس میں بظاہر ایران کے ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ سے45 سیکنڈ کے ’ آمنے سامنے‘ کو دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ واقعہ اس کے ایک ہفتے بعد پیش آیا جب آبنائے ہرمز میں متعدد ڈرون طیاروں کا امریکی طیارے یو ایس ایس ایسیکس کے ساتھ غیر محفوظ آمنا سامنا ہوا تھا۔ ان ڈرون طیاروں کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی کہ وہ ایران کے ہیں۔
ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ ڈرون طیارے دو نومبر کو امریکہ کے حملہ آور جہاز سے 1500 میٹر بلندی پر پرواز کرتے رہے۔
SEE ALSO: ایران کے ڈرون پروگرام میں مدد کا الزام،امریکہ کا افراد اور اداروں پر پابندی کا اعلاناس واقعے سے پہلے ایران کی فوج، پاسداران انقلاب نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے عمان کے سمندر میں امریکہ کی جانب سے ایران کے تیل بردار ٹینکر کو تحویل میں لینے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کو پینٹاگان نے ’’بلاشبہ ایک مکمل غلط بیانی اور غیر درست‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان بدستور انتہائی کشیدگی قائم ہے۔ تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سال 2015ء کے جوہری معاہدے پر نظر ثانی کے لیے ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے 2018 میں دستبردار کراتے ہوئے ایران پر دوبارہ امریکی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کے بعد تہران نے یورینیم کی افزودگی کی اس حد تک خلاف ورزی شروع کر دی تھی جو معاہدے میں طے شدہ تھی۔