وزیرِ اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کو دورۂ گلگت بلتستان کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار دادوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔
گلگت بلتستان سے شائع ہونے والے سب سے بڑے اخبار 'کے ٹو' کے چیف ایڈیٹر راجہ کاشف حسین مقپون نے بتایا کہ گزشتہ 72 برس سے گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ خواہش ہے کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے راجہ کاشف حسین مقپون نے بتایا کہ وزیرِ اعظم کا اعلان اب بھی یہاں کے عوام کی حقیقی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتا۔ کیوں کہ ابھی تک عبوری صوبہ بنانے کی بات ہو رہی ہے نہ کہ مکمل صوبہ بنائے جانے کی۔ تاہم پھر بھی وزیرِ اعظم کے اس اقدام کو لوگ مثبت دیکھ رہے ہیں۔
بعض مبصرین گلگت بلتستان کا تعلق کشمیر سے جوڑتے ہیں اور اسے ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اس اقدام کو ہمسایہ ملک بھارت نے ناپسند کیا ہے۔
راجہ کاشف حسین کے مطابق قیامِ پاکستان سے قبل گلگت بلتستان پر ڈوگروں کا راج تھا جن سے گلگت بلتستان کے عوام نے یکم نومبر 1948 کو آزادی حاصل کی جس کے بعد ان کے پاس تین آپشنز تھے۔ بھارت میں شامل ہونا، خود مختار وطن بنانا اور پاکستان میں شامل ہونا۔ تاہم گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بد قسمتی سے الحاق کے باوجود وہ تمام حقوق جو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں رہنے والے افراد کو حاصل ہیں، وہ گلگت بلتستان کے باسیوں کو حاصل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود انہیں کشمیر کاز کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
راجہ کاشف حسین نے واضح کیا کہ ہندوستان کی آزادی سے قبل ڈوگرہ راج کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ اسی لیے گلگت بلتستان کو کشمیر کاز سے جوڑا جاتا ہے لیکن جب 1948 میں گلگت بلتستان نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی تو اس کی باضابطہ طور پر آزاد شناخت ہو گئی جس کے بعد سے اسے کشمیر کے ساتھ جوڑنا نا انصافی ہے۔
رواں ماہ کی 15 تاریخ کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق عمومی طور پر جس سیاسی جماعت کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے وہی جماعت گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت بناتی ہے اور اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گزشتہ دو ہفتوں سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جلسے اور ریلیاں منعقد کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اتوار کو علاقے کا دورہ کیا، جب کہ آنے والے دنوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پارٹی کے دوسرے قائدین کا دورہ متوقع ہے۔
گلگت بلتستان کے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجہ کاشف حسین نے بتایا کہ انتظامی امور کے علاوہ گلگت بلتستان کے عوام کو تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر کے مسائل درپیش ہیں۔ یہاں کے طالب علم، تعلیم کے حصول کے سلسلے میں باہر کے علاقوں سے رجوع کرتے ہیں۔
ان کے بقول صحت کی بات کی جائے تو ایم آر آئی جیسی چھوٹی سہولت کے لیے بھی لوگ نہ صرف سینکڑوں کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں بلکہ انہیں کافی پیسے بھی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ان کے مطابق پرانی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بار بھی قوی امکان ہے کہ لوگ حکمراں جماعت کو ووٹ دیں گے کیوںکہ گلگت بلتستان ایک پس ماندہ علاقہ ہے اور یہاں کے عوام کی اپنے رہنماؤں سے بہت امیدیں ہوتی ہیں۔ انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ مرکز میں مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کی وجہ سے ان کا علاقہ ترقیاتی کاموں سے محروم ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مصنف اور تجزیہ کار محمد قاسم نسیم کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے اعلان کی تفصیلات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عبوری صوبہ بنانے سے ان کی کیا مراد ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد قاسم نسیم نے کہا کہ بدقسمتی سے لوگ گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ تو گردانتے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت دونوں کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام کو جو سہولیات حاصل ہیں وہ انہیں حاصل نہیں۔ عوام کا 72 سالہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ایک جس میں حدود کا تعین ہے اس میں تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں باقاعدہ نمائندگی حاصل نہیں ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ اعلان کی حد تک لوگ وزیرِ اعظم کی بات کا خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن مزید تفصیلات کا انتظار ہے کہ عبوری صوبہ بنائے جانے سے کس حد تک لوگوں کی محرومیوں میں کمی واقع ہوگی۔
گلگت بلتستان کی کُل آبادی تقریبا 15 لاکھ ہے اور اسے 10 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2009 میں گلگت بلتستان کو سیلف گورننس آرڈر دیا۔ اس کے تحت خطے کو انتظامی صوبہ بنایا۔ قاسم نسیم کے مطابق پیپلز پارٹی کے اس اقدام کو کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس نے آئینی عبوری صوبے کی سفارش کی تھی۔ لیکن 2018 میں ایک نیا آرڈر جاری کیا گیا جب کہ 2019 میں پی ٹی آئی نے ایک اور آرڈر جاری کیا لیکن کسی بھی آرڈر کو آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
مذکورہ آرڈرز کے تحت عبوری صوبے کی اسمبلی کو قانون سازی، سیاحت، توانائی اور دیگر شعبوں سے متعلق اہم فیصلوں کا اختیار دیا گیا تھا۔
محمد قاسم نسیم کے مطابق گلگت بلتستان کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ آئین کے مطابق حقوق ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ابھی تک ان کی شناخت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور جس ملک کے لیے انہوں نے قربانیاں دی ہیں اس کی پارلیمنٹ سمیت کسی آئینی ادارے میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس وقت الیکشن کا سب سے بڑا نعرہ شناخت کا ہے۔
ان کے مطابق شناخت کے بعد لوگ بنیادی انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت، روزگار، سیاحت، پن بجلی، زراعت اور لائیو اسٹاک کی بات کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق جب شناخت ہو گی تو ہی دوسرے مسائل آسانی سے حل ہوں گے۔
محمد قاسم نسیم کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر عوام وزیرِ اعظم کے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کے اعلان سے خوش ہیں۔
ان کے مطابق پہلے مرحلے میں پارلیمنٹ اور سینیٹ میں گلگت بلتستان کی حیثیت بطور مبصر ہی سہی لیکن پہلی مرتبہ یہاں کے عوام کے لیے پارلیمنٹ اور سینٹ کے دروازے کھلیں گے۔