کراچی میں پانچ سال قبل قتل ہونے والی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر اور سماجی راہنما پروین رحمان کے قتل کی دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تحقیقات کے لیے محکمہ داخلہ سندھ نے آئی جی سندھ کی سفارش پر پولیس کے سینیر سپرنٹنڈنٹ (ایس ایس پی) کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
جے آئی ٹی میں ایس ایس پی ضلع غربی کراچی شاہد عمر کے علاوہ آئی ایس آئی, ملٹری انٹیلی جینس, انٹیلی جینس بیورو, پاکستان رینجرز, اسپیشل برانچ سندھ پولیس, انسداد دہشتگردی ونگ کراچی اور ایف آئی اے سندھ کے نمائندے شامل ہوں گے۔
اس بارے میں محکمہ داخلہ سندھ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے جے آئی ٹی پروین رحمان کے قتل کی دوبارہ تحقیقات کرے گی اور پولیس کے سابقہ تفتیشی افسر کی جانب سے کیس بند کرنے میں کی جانے والی مجرمانہ بددیانتی کی بھی تحقیقات کرے گی۔ کمیٹی 15 روز میں تحقیقات مکمل کرکے محکمہ داخلہ کو پیش کرنے کی پابند ہوگی۔
پروین رحمان کو مارچ 2013 میں کراچی کے علاقے پیر آباد میں قتل کردیا گیا تھا۔ پروین رحمان براعظم ایشیا کی بڑی کچی آبادیوں میں شمار کی جانے والی اورنگی ٹاؤن سے متعلق اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر تھیں اور تقریبا 25 سال سے زائد عرصے سے ادارے سے وابستہ تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے یہ سال غریب بستی کی حالت بہتر کرنے میں صرف کئے۔
ان کے بہیمانہ قتل پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔ جس کے بعد پولیس نے چند ماہ بعد قتل کے الزام میں پپو کشمیری نامی شخص کو مانسہرہ سے گرفتار کیا تھا۔
ملزم کو انسداد دہشتگردی قوانین میں کی جانے والی ترمیم کی روشنی میں 90 روز تک نظر بندی پر رینجرز کے حوالے کیا گیا تھا جس کے بعد اس کے خلاف انسداد دہشتگردی عدالت میں کیس زیر سماعت ہے۔ چند ماہ قبل ہی اسی کیس میں پولیس نے ایک اور مبینہ ملوث ملزم امجد حسین کو بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسی کیس میں مطلوب ملزم قاری بلال مبینہ پولیس مقابلے میں مارا بھی جاچکا ہے۔ تاہم اس بارے میں ہونے والی ایک عدالتی تحقیقات پولیس کے اس بیان کو جھوٹ قرار دے چکی ہے کہ قاری بلال ہی نے پروین رحمان کو قتل کیا۔
پولیس کے مطابق قتل کے اصل محرکات بعض قبضہ گروپس کی جانب سے پروین رحمان کے کام سے ناپسندیدگی تھی۔ تقریبا پانچ سال گزرنے کے بعد بھی پولیس اصل قاتلوں سے دور ہے جبکہ بعض پولیس افسران کی جانب سے تحقیقات پر اثرانداز ہونے کی بھی شکایات ملی ہیں۔ نئی جے آئی ٹی ان دونوں نکات پر تحقیقات کرے گی۔
مبصرین اور سماجی تنظیموں سے وابستہ افراد اصل قاتلوں کی گرفتاری اور کیس کو خراب کرنے میں پولیس کے منفی کردار کے بےنقاب ہونے میں کامیابی کے لئے زیادہ پرامید نظر نہیں آتے اور یوں کیس اب بھی بند گلی ہی میں ہے۔