پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پشاور میں زیر تعمیر بس ریپڈ ٹرانزٹ(بی آر ٹی) منصوبہ آئندہ چند ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ جب کہ پشاور کے شہری اور ماہرین اس منصوبے کے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پشاور ترقیاتی ادارے کے ڈائریکٹر عالم زیب خان نے بس منصوبے کے بارے میں وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 26 کلومیٹر طویل منصوبے کا بیشتر کام مکمل ہو چکا ہے۔ ان کے بقول چند اسٹیشنز پر تزئین و آرائش کا کام جاری ہے جو چند ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔
عالم زیب خان کا کہنا تھا کہ کنٹریکٹر نے آئندہ مارچ تک کام مکمل کرنے کی مہلت مانگی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت نے مہلت دینے سے معذرت کرتے ہوئے کام جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے منصوبے کی تکمیل سے متعلق کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی تاہم حکومتی حلقوں کے مطابق رواں سال کے آخر تک اس منصوبے پر کام مکمل ہو جائے گا۔
اکتوبر 2017 میں لگ بھگ 49 ارب روپے کے ابتدائی تخمینے سے شروع کیے گئے منصوبے کو سابق وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے چھ ماہ میں مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن مبینہ بد انتظامی اور ٹھیکیداروں کی ناکامی کے باعث تاحال اس منصوبے پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔
ماہرین کے مطابق منصوبے کے ڈیزائن میں نقائص اور بار بار تبدیلیوں کے باعث یہ منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ حال ہی میں چار اسٹیشنز میں نقائص کی نشاندہی کے بعد ازسر نو کام جاری ہے۔
بس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر پشاور کے شہری وقتاً فوقتاً پریشانی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جب کہ گزشتہ دو سالوں سے پشاور میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کی شکایات بھی عام ہیں۔
منصوبے میں تاخیر کا معاملہ پشاور ہائی کورٹ تک بھی پہنچ گیا تھا۔ چند روز قبل سماعت کے دوران ایک فاضل جج نے ریمارکس دیے تھے کہ منصوبہ مکمل کرنا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔
پشاور بس منصوبے میں تاخیر پر ملک کی اپوزیشن جماعتیں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کر رہی ہیں۔
بس منصوبے میں تاخیر پر قومی جرگہ
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر مولانا امان اللہ نے دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر اس معاملے میں ایک قومی جرگہ بھی تشکیل دیا ہے۔
مولانا امان اللہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ پشاور بس منصوبے کا معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹھائیں گے۔ جس میں خیبرپختونخوا حکومت اور قومی احتساب بیورو(نیب) کو فریق بنایا جائے گا۔
قومی جرگے نے گزشتہ سال پشاور ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست بھی دائر کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا نیب اس منصوبے میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرے۔
'یہ منصوبہ حکومت کے لیے درد سر رہے گا'
پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے میں پہلی بار نقائص کی نشاندہی کرنے والے انجینئر گوہر خان اس منصوبے کے مستقبل کو تاریک قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ منصوبہ آنے والی حکومتوں کے لیے درد سر بنا رہے گا اور ایسا وقت بھی آئے گا جب اس منصوبے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا۔
گوہر خان کہتے ہیں کہ قلعہ بالا حصار سے لے کر یونیورسٹی روڈ کا حصہ فلائی اوور پر مشتمل ہے۔ جہاں تک مسافروں کی رسائی کے لیے برقی زینے تعمیر کیے گئے ہیں۔ جب کہ متبادل راستے نہ ہونے کے باعث 12 اسٹیشنز پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک مقامی وکیل اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ارباب عیسیٰ خان نے بھی پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔
ڈائریکٹر عالم زیب خان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے لیے گئے 485 ملین ڈالر قرض سے منصوبے کے تمام اخراجات پورے ہو جائیں گے۔ تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے منصوبے کے اخراجات میں مزید اضافہ ہو گا۔
حکومت کا دعوٰی ہے کہ بس منصوبے کے تکمیل سے ہر روز پانچ لاکھ مسافر استفادہ کریں گے جب کہ اس سے روزانہ 75 لاکھ روپے کی آمدن ہو گی۔
پشاور کے نواحی علاقے چمکنی سے حیات آباد تک یہ منصوبہ 26 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس کے ایک حصے میں فلائی اوور بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے جاپان اور دیگر ممالک سے 300 ائر کنڈیشنڈ بسوں کی خریداری کے سودے بھی کر رکھے ہیں۔