پشاور میں گرلز کالج کی مجوزہ نجکاری کے خلاف احتجاج

فائل

جمعرات کو دنیا بھر اساتذہ کا عالمی دن منایا جارہا ہے مگر پشاور میں لڑکیوں کے سب سے بڑے کالج 'فرنٹیئر کالج فار گرلز' کی اساتذہ اسے یوم سیاہ کے طور پر منا رہی ہیں۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سے تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے جس کا مقصد صوبے میں تعلیم کی شرح بڑھانے کے ساتھ نصاب کی تبدیلی اور نظامِ تعلیم میں دوسری اصلاحات شامل متعارف کرانا ہیں۔

انہی اصلاحات کی ایک کڑی کے طور پر صوبائی حکومت نے گزشتہ ماہ 'تعلیمی سروس ایکٹ' کے نام سے صوبائی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا جس میں کئی سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کی تجویز بھی شامل ہے۔

جمعرات کو دنیا بھر اساتذہ کا عالمی دن منایا جارہا ہے مگر پشاور میں لڑکیوں کے سب سے بڑے کالج 'فرنٹیئر کالج فار گرلز' کی اساتذہ اسے یوم سیاہ کے طور پر منا رہی ہیں۔ کیونکہ حکومت اس کالج سمیت دیگر سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کر کے ان میں بورڈ اف گورنرز بنانا چاہتی ہے۔

جمعرات کو یومِ اساتذہ کے موقع پر کالج کی استانیوں اور طالبات نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

کالج کی ایسوسی ایٹ پروفیسر درِ شہوار کے بقول کہ یہ حکومتی ادارے ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ ایسے اقدامات کرے جن سے یہ ادارے مضبوط ہوں نہ کہ ان کی نجکاری کردی جائے۔

انہوں نے کہا کہ نجکاری کے عمل کا مطلب ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کا انتظام سمبھالنے کی طاقت نہیں رکھتی۔

فرنٹیئر کالج کی اسسٹنٹ پروفیسر نشاط عزیز کا کہنا ہے کہ اساتذہ اور بیوروکریٹس کا طریقۂ انتخاب ایک جیسا ہے۔ کالج کی استانیاں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہی یہاں بھرتی ہوئی ہیں لیکن حکومت ان کی مراعات میں کمی کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اساتذہ ہی وہ طبقہ ہے جس کی تربیت کی بدولت باقی ادارے زندہ ہیں۔ تعلیمی اداروں سے ہی نکل کر لوگ ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں، حکومت ان معماروں کو کیوں کمزور کرنا چاہتی ہے؟

صوبائی محکمۂ تعلیم کے ترجمان وقاص خان نے وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تعلیمی اصلاحات چاہتی ہے اور اسے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اساتذہ کے بغیر یہ اصلاحات ناممکن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے حکومت کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرے گی جس پر اساتذہ کو اعتراض ہو۔

وقاص خان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے بارہا یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت اسکولوں کی نجکاری نہیں کر رہی۔ اسمبلی میں پیش کیے جانے والے تعلیمی اصلاحات پر مبنی بل سے ایجوکیشن سروس ایکٹ کو واپس لے لیا گیا ہے۔

تاہم فرنٹیئر کالج کی پروفیسر درِ شہوار کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تعلیمی اداروں میں بورڈ آف گورنرز متعارف نہیں کرانا چاہتی تو وہ اساتذہ کے ساتھ بیٹھے اور انہیں اعتماد میں لے کر ان کی کنفیوژن کو ختم کرے کیونکہ ایک طرف حکومت میڈیا پرتردید کرتی ہے تو دوسری طرف اساتذہ کے ساتھ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات بھی نہیں کرنا چاہتی۔

فرنٹیئر کالج میں اس وقت تقریباً پانچ ہزار کے قریب طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اساتذہ کے مطابق اگر ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو وہ کلاسوں کا بھی بائیکاٹ کریں گے جس سے ان لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہونے کا خدشہ ہے۔