پشاور ہائی کورٹ نے گورنر خیبر پختونخوا کے جاری کردہ ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈیننس غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا ہے۔
عدالتی حکم میں حراستی مراکز میں قید تمام افراد کا ریکارڈ پولیس کے حوالے کرنے جبکہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس خیبر پختونخوا کو تین روز کے اندر تمام حراستی مراکز کا کنٹرول سنبھالنے کی ہدایت بھی شامل ہے۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے یہ احکامات جمعرات کو جاری کیے۔
ہائی کورٹ کے بینچ نے 25ویں آئینی ترمیم کے بعد قبائلی علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی اور اس حوالے سے وہاں پر ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈیننس کے غیر فعال ہونے سے متعلق دائر مختلف درخواستوں کی سماعت کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا تھا کہ آئین میں 25ویں ترمیم کے بعد ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈیننس فاٹا اور پاٹا کے لیے نافذ تھا جس کے تحت انٹرنمنٹ سینٹر فاٹا اور پاٹا میں قائم ہوئے تاہم بعد ازاں گورنر نے 25 اگست کو ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈیننس کا دائرہ اختیار صوبہ بھر کے لیے بڑھا دیا تھا جبکہ گورنر کو اس آرڈیننس کا اختیار نہیں تھا۔
درخواست گزاروں کے مطابق جب آرڈیننس جاری ہوا تو اس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور قانونی طور پر جب اجلاس جاری ہو تو گورنر آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ دوسری جانب اس آرڈیننس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے انٹرمنٹ سینٹرز کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ پانچ اگست کو جاری ہونے والے آرڈیننس کے تحت اب یہ قانون پورے صوبے میں لاگو ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل نے درخواستوں کے خلاف دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے اگست میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈیننس کو خیبر پختونخوا میں نافذ کیا جو قانون اور آئین کے مطابق ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شہری کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ اس آرڈیننس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جہاں امن عامہ کی صورت حال بگڑتی ہے تو پہلے اعلامیہ جاری ہوگا اور پھر یہ نافذ العمل ہو جائے گا۔
اس موقع پر چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ اس آرڈیننس کی ضرورت کیا تھی کیوں اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پورے صوبے کو فاٹا میں ضم کیا گیا ہے۔
عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے دونوں جانب سے دلائل مکمل ہونے پر ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ گورنر خیبر پختونخوا کے جاری آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے انٹرنمنٹ سینٹرز کے حوالے سے صوبائی حکومت کے نوٹی فکیشن کو بھی غیر آئینی قرار دیا جبکہ ان حراستی مراکز میں قید افراد کا تمام ریکارڈ پولیس کے حوالے کرنے اور آئی جی خیبر پختونخوا کو صوبے میں قائم تمام انٹر منٹ سینٹرز کا کنٹرول سنبھالنے کے احکامات جاری کیے۔
وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے اور ریاست کی عمل داری قائم کرنے کے لیے ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور ریگولیشن لگ بھگ 2011 میں نافذ کیا گیا تھا۔
ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور ریگولیشن 2011
ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور ریگولیشن کے تحت کے تمام سکیورٹی اداروں بالخصوص فوج کو خیبر پختونخوا کے سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں کسی بھی مشتبہ شخص کی گرفتار کرنے اور تفتیش کے لیے حراست میں رکھنے کا حق حاصل تھا۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والوں کو کم از کم 10 سال تک سکیورٹی ادارے تحویل میں رکھ سکتے تھے۔
عدالتی فیصلے کے بعد کسی بھی سکیورٹی ادارے نے اس قانون کے تحت گرفتار افراد کی تعداد کے بارے میں اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
پس منظر
دس سال قبل 2009 میں سوات اور ملحقہ اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'راہ راست'، جنوبی وزیرستان میں آپریشن 'راہ نجات ' اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں آپریشن 'خیبر-ون' اور 'خیبر-ٹو' کیے گئے۔
ان کارروائیوں میں حراست میں لیے جانے والے مبینہ دہشت گردوں کی گرفتاری اور ان سے پوچھ کچھ کو قانونی بنانے کے لیے 2011 میں حکومت نے ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور ریگولیشن کے نام سے قانون نافذ کیا تھا۔
اس قانون کے تحت سوات، کوہاٹ اور لکی مروت میں مبینہ خطرناک دہشت گردوں کو قید کرنے اور ان سے پوچھ گچھ کے لیے انٹرمنٹ سینٹر قائم کیے گئے تھے۔
اسی طرح دہشت گردی سے ترک کرنے والے افراد کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے کے لیے بھی تربیتی اور فلاحی مراکز اسی قانون کے تحت قائم ہوئے۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے حملے کے بعد اس قانون کی اہمیت مزید اجاگر کی گئی۔ اُس وقت خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں سے مشتبہ دہشت گردوں کو حراست میں لیا گیا۔ مبینہ طور پر ان کی گرفتاری قبائلی علاقوں میں ظاہر کی گئی۔ بعد ازاں ان مبینہ دہشت گردوں کو ان مراکز میں رکھا گیا۔
آئین میں ترمیم سے وفاق زیر انتظام قبائلی علاقوں کی آئینی حیثیت میں تبدیلی ہوئی جس کے نتیجے میں حکام کا کہنا ہے کہ اس قانون کے نفاذ کو اسی بنیاد پر پورے صوبے میں نافذ کیا گیا تھا۔
قانون کی مخالفت
جب 2011 میں اس قانون کا نفاذ ہوا تو ملک بھر کے وکلا اور انسانی حقوق کے متحرک اداروں نے اس کی مخالفت کی تھی۔
مخالفت کرنے والوں میں پاکستان کا انسانی حقوق کمیشن کی رہنما اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر سرفہرست تھیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت مختلف غیر سرکاری ادارے، صحافتی تنظیمیں اور سماجی حلقے اس قانون کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
جب گورنر خیبر پختونخوا نے 25 اگست 2019 کو آرڈیننس کے ذریعے ایکشن اِن ایڈ آف سِول پاور ریگولیشن کا قانون نافذ کیا تو صوبائی اسمبلی کی حزب اختلاف میں شامل جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے اس کے خلاف ایک تحریک التوا بھی اسمبلی میں جمع کرائی۔
اسمبلی میں تاحال اس تحریک التواء کو بحث کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔