حالیہ برسوں میں شہریوں کے حق رازداری ’پرائیویسی‘ کو کئی طرح کے خطرات لاحق رہے ہیں، جن میں سب سے اہم فون پر ہونے والی گفتگو میں کسی کی طرف سے مداخلت، اسے سنا جانا یا ریکارڈ کرنا شامل ہیں۔
گو کہ پاکستان کے آئین کی شق 14 بھی شہریوں کے اس حق کو یقینی بناتی ہے، لیکن وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام ڈویژن کے عہدیداروں نے انکشاف کیا ہے کہ قومی سلامتی کے تناظر میں کسی کے بھی فون میں مداخلت جائز ہے۔
یہ بات عہدیداروں نے پیر کو ایوان بالا، ’سینیٹ‘ کی کمیٹی برائے مجوزہ قانون سازی کے اجلاس میں بتائی جس پر قانون سازوں کی طرف سے حیرت اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ٹیلی کام ڈویژن کے ایک رکن نے قانون سازوں کو بتایا کہ فون کالز میں مداخلت قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے اور بعض انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
ان کے بقول، سنگین جرائم کے شبہے کے علاوہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی مشتبہ افراد کی فون کالز کی نگرانی کی جاتی ہے۔
تاہم، کمیٹی کے سربراہ سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دیگر ممالک میں ایسی سرگرمیاں عدالتی اجازت نامے کے بغیر نہیں کی جاتیں اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ مناسب نہیں۔
منگل کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے داؤد اچکزئی نے بتایا کہ اس بارے میں قانون موجود ہے کہ کسی کی بھی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کی جا سکتی، مگر وزارت کے عہدیداروں سے جب اس بابت پوچھا گیا تو ان کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔
اُنھوں نے کہا: "جس طرح کا تاثر مل رہا ہے کہ جس کا بھی دل چاہتا ہے وہ کال میں مداخلت کرتا ہے اس میں ہمارا یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے کہ صرف سکیورٹی مقاصد کے لیے یہ چیز کی جا رہی ہے تو انھوں (عہدیداروں) نے کہا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں تو میں نے کہا کہ موثر طیرقے سے قانون سازی اس پر آپ تجویز کریں تاکہ عام لوگوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔"
حق رازداری کی خلاف ورزی سے متعلق سائبر کرائمز کا قانون بننے کے بعد بھی مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اور، ناقدین کا خیال ہے کہ حکام اس قانون کو مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اور اس سے آزادی اظہار رائے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
لیکن، حکومتی عہدیداران ایسے خدشات کو رد کرتے آئے ہیں۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم ’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ نگہت داد نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہدیداروں کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔
بقول اُن کے، "فیئر ٹرائل ایکٹ 2012ء میں یہ واضح کر دیا گیا کہ اگر کسی نے کال کو ٹیپ کرنا تو وہ عدالت سے اجازت لے گا تو وہ پورا طریقہ کار موجود ہے۔۔۔سائبر کرائم کا جو ایکٹ آیا ہے اس میں بھی یہی بات لکھی گئی ہے کہ اگر کسی کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جائے گا تو مجھے نہیں پتا کہ کیوں وزارت نے یہ بات کی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے بھی موجود ہیں۔ لہذا، ان کے منافی اقدام کی کسی طور بھی کوئی توجیہہ نہیں ہو سکتی۔