پاکستان کے وزیر برائے ایوی ایشن غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز نے بین الاقوامی اداروں کے تحفظات کو دور کر دیا ہے اور رواں سال فروری اور مارچ سے پی آئی اے کا یورپ اور برطانیہ کے لیے فضائی آپریشن شروع ہو جائے گا۔
پی آئی اے کا آپریشن شروع تو ہو رہا ہے لیکن وفاقی وزیر غلام سرور خان کے جون 2020 میں پی آئی اے کے 30 سے 40 فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونےکے بیان اور کرونا پابندیوں کی وجہ سے پی آئی اے کو صرف روینیو کی مد میں 50 سے 60 ارب روپے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دیگر آپریشنل نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
ایوی ایشن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ ملازمین کی تنخواہیں، جہازوں کی لیز، دفاتر کے کرائے اور کئی ایسے اخراجات ہیں جو پی آئی اے نے ادا کر رہا ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ نقصانات متوقع ریونیو کے نقصان سے تین سے چار گنا زائد ہیں۔
SEE ALSO: بین الاقوامی ایوی ایشن تنظیم نے پاکستان میں سیفٹی سے متعلق اعتراضات واپس لے لیے ہیں، عہدیداروں کا دعویٰوفاقی وزیر غلام سرور خان نے کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے فضائی حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پی آئی اے میں کام کرنے والے 30 سے 40 فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ وفاقی وزیر کے اس بیان کے بعد یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی(ایاسا) نے پاکستان سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کردی تھی ، اس کے بعد برطانیہ اور کینیڈا نے بھی پاکستان سے فلائٹ آپریشن بند کردیا تھا۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران غلام سرور خان کا کہنا تھا سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ہم نے تمام 850 پائلٹس کے لائسنس چیک کیے تھے جس میں سے 262 لائسنس مشکوک پائے گئے تھے۔ یہ حقائق چھپائے بھی جاسکتے تھے لیکن ہم نے مشکوک لائسنسز کا فرانزک آڈٹ کروایا جس میں سے 50 بالکل جعلی ثابت ہوئے۔34پائلٹس کے پاس جھوٹے لائسنس تھے جن کو برطرف کیا گیا۔ اس معاملہ میں انکوائری کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی کے 5 افسروں کو جیل بھی بھجوایا گیا ہے۔
غلام سرور خان نے کہا کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن، ICAO یا (اکاؤ) کی ٹیم کے مطابق پاکستان نے ان کی طرف سے پیش کردہ تحفظات پر بہترین کام کیا اور اصلاح کے ساتھ تمام خدشات کو دور کیا ہے۔
ایوی ایشن انڈسٹری کے نقصانات
پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز ایک عرصہ سے نقصان میں چلنے والا ادارہ ہے اوراربوں روپے کے بوجھ تلے دبے اس ادارے کے لیے وفاقی وزیر غلام سرور خان کا بیان اور کرونا وبا ایک بھیانک خواب ثابت ہوئے۔ خاص طور پر کرونا وبا کی وجہ سے پروازیں بند ہونے سے ائیرلائن کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
پی آئی اے اپنے بجٹ کا بڑا حصہ حج اور عمرہ سیزن کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور پی آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق اس کے ریونیو کا بڑا حصہ ان دونوں مواقع پر ہی حاصل ہوتا ہے لیکن کرونا وبا کی وجہ سے حج اور عمرہ سیزن نہیں ہوسکا اور پی آئی اے کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
پی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کرونا وبا اور وفاقی وزیر کے بیان کے بعد پی آئی اے کو ریونیو کی مد میں 50 سے 60 ارب روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا،" یہ وہ رقم ہے جو ہمارے پاس آنی چاہیئے تھی لیکن نہیں آسکی۔پی آئی اے نے 2020 میں بہتر پرفارم کیا اور ہمارے اخراجات اور آمدن برابر ہوگئے تھے۔ 2017 میں ہمارا آپریشنل نقصان 35 ارب تھا جو 2020 میں 68 کروڑ پر آگیا تھا۔ لیکن 2021 میں ہمیں مزید نقصان ہوا ہے۔ پروازیں بند ہونے سے پی آئی اے کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پی آئی اے 150 ارب کا ریونیو جمع کرتا تھا لیکن ہم صرف 30فیصد پروازیں آپریٹ کریں گے تو نقصان تو ہوگا۔"
وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پوری دنیا کی ایوی ایشن انڈسٹری کو نقصان ہوا لیکن پی آئی اے نے منافع کمایا ہے، لیکن یہ منافع کتنا تھا اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔
ایوی ایشن رپورٹنگ کے ماہر طاہر عمران اس بارے میں کہتے ہیں کہ میرے خیال میں پی آئی اے کے نقصانات صرف 50سے 60 ارب روپے کے نہیں بلکہ اس سے تین گنا زائد ہیں۔ کیونکہ یہ صرف ریونیو کے نقصانات ہیں، پورے یورپ میں ان کے دفاتر آج بھی موجود ہیں جہاں ان کے کرائے ادا کیے جارہے ہیں، تمام ملازمین اپنی جگہ پر کام کررہے ہیں، جہازوں کی لیزز ادا کی جاتی رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اصل کمائی ہی یورپ اور کینیڈا کے روٹس پر تھی۔
طاہر عمران نے مزید کہا کہ اس صورتحال سے ایک بہت بڑا نقصان افغانستان میں انخلا کے بعد ہوا ہے جب روزانہ اسلام آباد اور دیگر ائیرپورٹس سے درجنوں کے حساب سے پروازیں یورپ گئی ہیں۔ ہرہفتہ تین تین چار چار پروازیں بیلجیم، اٹلی، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں گئی ہیں، اس پابندی کی وجہ سے پی آئی اے یا کسی اور پاکستانی ائیرلائن کو یورپ کے لئے پرواز کی اجازت نہیں تھی۔ جبکہ دنیا بھر کی ائیرلائنز نے اس سے کروڑوں روپے کمائے۔
طاہر عمران کے مطابق صرف انخلا کے دوران پی آئی اے اور دیگر ائیر لائنز کی 60 سے زائد پروازیں لے جائی جاسکتی تھیں اور ہر چارٹرڈ پرواز کا کرایہ دس سے پندرہ لاکھ ڈالر تھا۔ اس طرح 7سے 8 کروڑ ڈالر کا وہ بزنس جو ہم باآسانی حاصل کرسکتے تھے، پی آئی اے پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے ہم اس سے محروم رہ گئے ۔
پی آئی اے کا آپریشن کہاں کہاں شروع ہوگا؟
پی آئی اے کو ابھی صرف اکاؤ کی طرف سے سرٹیفکیشن ملی ہے لیکن ابھی یورپی ایجنسی ایاسا کی طرف سے اجازت ملنا باقی ہے، ماضی میں پاکستانی حکام نے ایاسا سے جب بھی رابطہ کیا تو ان کی طرف سے اکاؤ کے تحفظات دور کرنے کی بات کی گئی، تاہم اب اکاؤ کی طرف سے پی آئی اے کے لیے کلئیرنس دیدی گئی ہے جس کے بعد پاکستان ایاسا سے رابطہ کرے گا۔
اس بارے میں ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم اکاؤ کی پابندی ہٹنے کے بعد ایاسا کے ساتھ رابطے میں آگئے ہیں، اکاؤ کی کلئیرنس وہاں جمع کروا دی گئی ہے، اور جیسے ہی وہاں سے رسپانس آئے گا اس کے دو سے تین ہفتے بعد پروازوں کا آغاز کردیا جائے گا،
برطانیہ میں یہ پروازیں لندن، مانچسٹر اور برمنگھم کے لیے شروع کی جائیں گی جبکہ یورپ میں اوسلو اور پیرس کے لیے پروازیں شروع کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پی آئی اے کے جو 777 طیارے لانگ سٹوریج میں ڈال دیے گئے تھے انہیں اب سٹوریج سے نکال کر واپس لایا جارہا ہے۔ اس وقت 7 طیارے آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ مزید 2 سے 3 طیارے آئندہ چند روز میں آپریشن کے لیے تیارہونگے۔
وفاقی وزیر غلام سرورخان کا کہنا تھا کہ ہمیں ورثہ میں انتیس جہازوں کا بیڑا ملا تھا لیکن جو جہاز ورثے میں ملے وہ خراب تھے اور ان میں سے پرزے نکال نکال کر کام چلایا جارہا تھا۔پی آئی اے نے اپنے وسائل کےساتھ آج چونتیس جہازوں کا بیڑا تیار کیا ہے جو دنیا بھر میں پرواز کریں گے۔
طاہر عمران کہتے ہیں کہ اب سعودی عرب کا سیکٹر کھلنے کے بعد آہستہ آہستہ پروازیں شروع ہورہی ہیں ۔لیکن اس پابندی کی وجہ سے صرف پی آئی اے نہیں بلکہ نجی ائیرلائنز کو بھی نقصان اٹھانا پڑا، اس پابندی سے پہلے نجی ائیرلائن سیرین ائیر نے 3 وائیڈ باڈی اے 330 طیارے حاصل کیے تھے اور انہیں برطانیہ کے لیے استعمال کیا جانا تھا لیکن پاکستان پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے اس ائیرلائن کو بھی نقصان اٹھانا پڑا اور ان کے جہاز اسلام آباد۔ کراچی روٹ پر ہی چلتے رہے جبکہ یہ جہاز اس مقصد کے لیے نہیں بلکہ لانگ روٹ کے لیے بنے تھے۔
طاہر عمران نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مبینہ غلط اقدامات کی وجہ سے مجموعی طور پر 200 ارب روپے تک کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت برٹش ائیرویز اور ورجن اٹلانٹک بھاری منافع کما رہی ہیں اور ہفتہ وار پروازوں کے بجائے روزانہ پروازیں آپریٹ کر رہی ہیں۔