پاکستان کی قومی فضائی کمپنی "پی آئی اے" کے ملازمین کی جانب سے اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے جاری احتجاج شدت اختیار کرگیا ہے جبکہ حکومت اور ملازمین کے نمائندوں کے درمیان جاری مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔
پی آئی اے کے ملازمین کی جانب سے جاری احتجاج کے دوسرے روز 30 کے قریب ملکی وغیر ملکی پروازیں منسوخ کردی گئیں جبکہ درجنوں دیگر فلائٹس تاخیر سے روانہ ہوئیں جس کے باعث ہزاروں مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ادھر کراچی ایئر پورٹ پر مظاہرین اور ایئرپورٹ سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کے درمیان تصادم میں صحافیوں سمیت کئی افراد زخمی ہوگئے ہیں جبکہ مظاہرین نے تشدد کرنے والے اے ایس ایف اہلکاروں کی برطرفی تک ایئرپورٹ لاؤنج میں دھرنا دے دیا ہے۔
دو روز سے جاری احتجاج
پی آئی کے ملازمین امریکا اور یورپ کے منافع بخش فضائی روٹس ایک ترک کمپنی کے حوالے کیے جانے کے مجوزہ معاہدے، احتجاج کی پاداش میں قومی فضائی کمپنی سے حال ہی میں برطرف کیے جانے والے ملازمین کی بحالی اور پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن اعجاز ہارون کی برطرفی کیلئے گزشتہ روز سے سراپا احتجاج ہیں۔
بدھ کی دوپہر پی آئی اے کے ملازمین کی نمائندہ تنظیموں کے اتحاد "جوائنٹ ایکشن کمیٹی" اور حکومت کی جانب سے معاملے کے حل کیلئے قائم کردہ دو رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک آجانے کے بعد ملازمین کی انجمنوں نے اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
حکومت کی دعوت پر محنت و افرادی قوت کے وفاقی وزیر خورشید شاہ اور ایم این اے منظور احمد پر مشتمل دو رکنی سرکاری کمیٹی کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اسلام آباد ایئر پورٹ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس یقین دہانی نہ کرائے جانے کے باعث اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
پی آئی اے کے ملازمین کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے ایم ڈی پی آئی اے کی برطرفی کی یقین دہانی کرانے سے معذرت کرتے ہوئے ملازمین کے باقی دو مطالبات تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم ملازمین تینوں مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
ان کے بقول مذاکرات کیلئے آنے والی حکومتی کمیٹی غیر متعلقہ لوگوں پر مشتمل تھی جنہیں نہ تو قومی فضائی کمپنی کے معاملات کا کوئی علم تھا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا مینڈیٹ حاصل تھا جس سے ان کے بقول حکومت کی غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتاہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاج جاری رکھنے کے اعلان کے بعد کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے تمام اہم ایئرپورٹس پر ملازمین کی اکثریت نے کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
کراچی ایئرپورٹ پر لاٹھی چارج
بدھ کی شام کراچی ایئرپورٹ پر صورتِ حال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب ایئرپورٹ کی انتظامیہ نے وہاں احتجاج کرنے والے کئی درجن ملازمین کو منتشر کرنے کیلئے ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں کو طلب کرلیا۔اے ایس ایف اہلکاروں نے احتجاجی ملازمین اور ان کی کوریج کرنے والے میڈیا کے نمائندوں پر لاٹھی چارج کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جس سے دو درجن سے زائد ملازمین اور سات صحافی زخمی ہوگئے۔
اس موقع پر ایئرپورٹ لاؤنج میں بھگدڑ مچ گئی جس کے باعث کئی مسافر بھی زخمی ہوئے۔
بعد ازاں قومی فضائی کمپنی کے ملازمین اور صحافیوں نے خود پر ہونے والے احتجاج کے خلاف ایئرپورٹ کے سیکورٹی روم کے باہر دھرنا دیا جو تاحال جاری ہے۔ مظاہرین تشدد میں ملوث اے ایس ایف اہلکاروں کی برطرفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
وزیرِدفاع چوہدری احمد مختار نے کراچی ایئرپورٹ پر پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
پروازوں کی منسوخی
قومی فضائی کمپنی کے ملازمین کے گزشتہ 48 گھنٹوں سے جاری احتجاج کے باعث اب تک پی آئی اے کی 40 کے لگ بھگ ملکی و بین الاقوامی پروازیں منسوخ ہوچکی ہیں جس کے باعث ہزاروں مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
پی آئی اے حکام کے مطابق ملازمین کے احتجاج کے باعث کئی ملکی پروازوں کے علاوہ قومی فضائی کمپنی کی یورپ، مشرقِ وسطی اور ایشیا کے کئی ممالک کیلئے طے شدہ فلائٹس بھی منسوخ کردی گئی ہیں جبکہ کئی درجن پروازوں کی روانگی تاخیر کا شکار ہوئیں۔
پی آئی کے ترجمان مشہود تاجور کے مطابق ملازمین کے احتجاج سے کمپنی کو اب تک 30 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔
ملازمین کے مطالبات کیا ہیں؟
قومی فضائی کمپنی سے وابستہ پائلٹس، کریو اور گراؤنڈ اسٹاف کے اراکین ترکی کی فضائی کمپنی کے ساتھ مجوزہ کوڈ شیئرنگ معاہدہ کی منسوخی، معطل اور برطرف ملازمین کی بحالی اور ایم ڈی پی آئی اے کی برطرفی کے مطالبات کی منظوری کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔
مجوزہ معاہدہ کے تحت قومی فضائی کمپنی جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈ، اسپین اور امریکہ جیسے منافع بخش روٹس ترک کمپنی کے حوالے کردے گی جو ان مقامات کیلئے پی آئی اے کی جگہ فلائٹس آپریٹ کرے گی۔ پی آئی اے انتظامیہ کا کہناہے کہ مذکورہ معاہدہ فی الحال طے نہیں پایا اور اس کی شرائط پر ترک کمپنیوں سے بات چیت جاری ہے جنہیں حتمی شکل دیے جانے کے بعد منظوری کیلئے حکومت کو پیش کیا جائے گا۔
ملازمین کا دوسرا مطالبہ اپنے برطرف ساتھیوں کی بحالی ہے۔ واضح رہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ کی جانب سے پالیسیوں پر احتجاج کرنے کی پاداش میں گزشتہ چند روز کے دوران پانچ پائلٹس برطرف کیے جاچکے ہیں جبکہ کمپنی کے 70 سے زائد ملازمین کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
ملازمین ایم ڈی پی آئی اے کی برطرفی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں جنہیں صدرآصف علی زرداری کا قریبی دوست قرار دیا جاتا ہے۔ ملازمین کی انجمنوں کے نمائندوں کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے مذاکرات میں وزیرِاعظم سید یوسف رضاگیلانی کی نمائندگی کرنے والی حکومتی ٹیم نے بھی ایم ڈی پی آئی کی برطرفی کا مطالبہ ماننے سے معذوری ظاہر کی تھی۔