چین کے ایک نئے منصوبے 'سپر ڈیم' کی تعمیر کے اعلان نے بھارت اور بنگلہ دیش کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ ڈیم دریائے یارلنگ سانگپو، جسے بھارت میں براہم پترا دریا کہتے ہیں، پر بنایا جائے گا۔ چین کی کمپنی "پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنا" نے اس ڈیم کی تعمیر کا اعلان نومبر میں کیا تھا۔
اس ڈیم کو تبت کے علاقے میں تعمیر کیا جائے گا۔ یہ علاقہ بھارت کے شمال مشرقی صوبے ارونچل پردیش کے ساتھ واقع ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے جسے وہ جنوبی تبت کا نام دیتا ہے۔
اب تک ڈیم کی تعمیر شروع نہیں ہوئی البتہ ماہرین کی نظر میں یہ ڈیم مستقبل میں بھارت اور چین میں تنازعات کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دے گا جب کہ بنگلہ دیش کو بھی اس ڈیم کی تعمیر پر تشویش ہے جو تازہ پانی کے لیے اس دریا پر انحصار کرتا ہے۔
بھارتی ماہرین کہتے ہیں کہ اس ڈیم کی تعمیر سے دو نقصان دہ صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں یعنی سیلاب اور پانی کی قلت۔
SEE ALSO: کیا پاکستان کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی ہے؟دوسری طرف سلامتی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ عسکری فورسز کی خطے میں بھاری موجودگی میں اس ڈیم کی تعمیر چین کو بھارت پر برتری دلا دے گی۔ دونوں ہمسایہ ممالک پہلے ہی کوہِ ہمالیہ کی متنازع سرحد پر اختلافات اور تناؤ کا شکار ہیں۔
یہ ڈیم 60 گیگا بائٹس کی بڑی مقدار میں بجلی پیدا کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈیم دریائے یینگزی پر دنیا کے عظیم ترین "تھری گورگز ڈیم" سے تین گنا زیادہ بڑا ہوگا۔
نئی دلی میں قائم "منوہر پری کار انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینیلسز" سے منسلک ماہر جگ ناتھ پانڈا کہتے ہیں کہ بھارت کو سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ چین یکطرفہ طور پر اس ڈیم کی تعمیر کرے گا اور یوں وہ کئی ممالک میں گزرنے والے اس دریا کے بہاؤ کو یکطرفہ طور پر کنٹرول کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ چین بھارت سے اپنے تنازعات کو پانی کے بہاؤ سے مشروط کرے گا تاکہ نئی دلی پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
چینی تعمیراتی کمپنی کے چیئرمین یان زہیونگ کہتے ہیں کہ اس ڈیم سے پیدا کی جانے والی بجلی سے چین اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا اور اپنی پانی کی سیکیورٹی کو مستحکم کرے گا۔ وہ کہتے ہیں چین کے لیے بجلی کی پیداوار کا یہ تاریخی موقع ہے۔
دوسری طرف عسکری امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے بہت سے مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔
SEE ALSO: دریائے نیل پر متنازع ڈیم کی تعمیر، متعلقہ ممالک مذاکرات پر تیار"دہلی پالیسی گروپ" تھنک ٹینک سے منسلک بریگیڈیئر ارون سہگل کہتے ہیں کہ جب چین اتنا بڑا منصوبہ مکمل کرے گا تو اس کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر فضائی فورس بھی تعینات کرے گا، شاہراہیں تعمیر ہوں گی اور نئے قصبے بھی بنائے گا۔
دلی میں چین کے سفارت خانے نے ان تحفظات پر کہا ہے کہ یہ منصوبہ ابھی محض اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔
سفارت خانے کے گزشتہ ماہ جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چین ہمیشہ سرحد سے گزرنے والے دریاؤں پر ترقیاتی کاموں کے متعلق ذمہ دارنہ رویہ اپناتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ چین ہر منصوبے کو سائنسی انداز میں دیکھے گا اور اس بات کو سامنے رکھے گا کہ اس سے دریا کے بہاؤ کے اونچے اور نچلے مقامات اور ممالک پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین نے 2018 کے سرحدی تنازع کے بعد سیلابوں کی پیشگوئی کرنے میں مددگار معلومات کا بھارت سے تبادلہ نہیں کیا تھا۔
بھارت اور چین کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی سرکاری معاہدہ نہیں ہے لیکن دونوں کے درمیان پانی کے بہاؤ کے متعلق ڈیٹا کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔
چین پہلے ہی دریائے یارلنگ سانگپو پر ایک درجن کے قریب ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔
چین کے 'سپر ڈیم' کی تعمیر کے اعلان کے بعد ایک بھارتی اہلکار نے کہا ہے کہ دلی بھی بھارتی بارڈر کے اندد دریائے برہما پترا پر ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
ادھر بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ چین کے سپر ڈیم سے وہ بھارت کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہو گا کیوں کہ اس ڈیم سے بنگلہ دیش میں بہنے والا پانی گنجان آباد علاقوں میں انسانی اور زراعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔ لہذا ڈیم تعمیر کرنے والے دریا کے نچلے بہاؤ کے ممالک سے مشورہ بہت ضروری ہے۔
ڈھاکہ میں قائم "سنٹر فار اینوائرنمنٹل اینڈ جیوگرافک انفارمیشن سروسز" کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ملک فدا خان کا کہنا ہے کہ خشک موسم میں برہما پترا دریا بنگلہ دیش کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے بہاؤ میں رکاوٹ سے کئی قسم کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔