کرکٹ ورلڈ کپ اتوار کو آسٹریلیا کی جیت کے ساتھ ختم ہوگیا. یہ ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کی چھٹی کامیابی تھی جس میں ان کے اِن فارم کھلاڑیوں نے اہم کردار ادا کیا۔
جہاں اِن فارم کھلاڑیوں کا ٹیم کی فتوحات میں ہاتھ تھا وہیں کچھ ٹیموں کی شکست کے پیچھے وہ کھلاڑی تھے جو شائقین ، ساتھی کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ تینوں کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
اس فہرست میں وہ کھلاڑی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں میگا ایونٹ سے قبل باتیں ہورہی تھیں کہ وہ ورلڈ کپ میں ٹرمپ کارڈ ثابت ہوں گے لیکن جو ہوا اس کے برعکس ہوا ۔
یہاں بالرز کے بجائے بلے بازوں اور آل راؤنڈرز کی تعداد اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ ایونٹ میں وکٹوں نے بالرز کی مدد کم اور بلے بازوں کی زیادہ کی۔ بیٹنگ فرینڈلی وکٹوں پر بھی نہ چلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد اس لسٹ میں زیادہ ہے۔
جوس بٹلر، انگلینڈ
ایونٹ میں مایوس کن کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں میں سرفہرست نام انگلینڈ کے کپتان جوس بٹلر کا ہے جن کی قیادت میں ان کی ٹیم اعزاز کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔
وکٹ کیپر بلے باز نے چار سال قبل ایک سینچری اور دو نصف سینچریوں کی مدد سے ٹیم کو چیمپئن بنوایا تھا۔ لیکن اس بار 9 کے 9 میچز کھیلنے کے باوجود وہ ایک بھی نصف سینچری اسکور نہ کرسکے۔
بٹلر نے پورے ایونٹ میں مجموعی طور پر 138 رنز اسکور کیے تھے جس میں سب سے بڑی اننگز 43 رنز کی تھی جو انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے میچ میں کھیلی تھی۔
جونی بئیراسٹو، انگلینڈ
سن 2019 کے ورلڈ کپ ایڈیشن میں 532 رنز اسکور کرنے والے جونی بئیراسٹو نے چار سال بعد مداحوں کو مایوس کیا ۔
گزشتہ ایونٹ میں انہوں نے دوسینچریاں اسکور کی تھیں۔ لیکن اس بار انہوں نے صرف دو نصف سینچریوں کی مدد سے 215 رنزاسکور کیے۔
انہوں نے ان میں سے ایک ففٹی ایونٹ کے دوسرے میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف بنائی تھی تو دوسری آخری میچ میں پاکستان کے خلاف۔ اور دونوں ہی میچ ان کی ٹیم نے جیتے تھے۔
ہیری بروک، انگلینڈ
نوجوان بلے باز ہیری بروک سے ان کی ٹیم کو اس قدر امیدیں وابستہ تھیں کہ میگا ایونٹ سے چند دن پہلے انہیں اسکواڈ کا حصہ بنانے کے لیے گزشتہ ورلڈ کپ کے ہیرو جیسن روئے کو ڈراپ کردیا گیا۔
ان کے مداح ان سے اچھی کارکردگی کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ لیکن ہیری بروک نہ تو مداحوں کے اعتماد پر پورا اتر سکے، نہ ہی سلیکٹرز کے اور 6 میچز میں صرف ایک نصف سینچری کی مدد سے 169 رنز ہی بناسکے۔
شاداب خان، پاکستان
پاکستان کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان اور لیگ اسپین آل راؤنڈر شاداب خان میگا ایونٹ کے دوران نہ بالنگ سے متاثر کرسکے اور نہ ہی بیٹنگ سے۔
متعدد میچز انہوں نے کن کشن کی وجہ سے مس کیے لیکن اس انجری سے پہلے اور بعد میں ان کی کارکردگی ایک ہی جیسی رہی۔
انہوں نے ایونٹ کے دوران چھ میچز کھیلے جس میں نہ تو کوئی نصف سینچری اسکور کی، نہ ہی زیادہ وکٹیں لیں۔
ان کے مجموعی رنز 121 تھے جس میں سب سے زیادہ اسکور 43 رنز تھا جب کہ پورے ایونٹ میں وہ صرف دو ہی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرسکے۔
امام الحق، پاکستان
ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل پاکستانی اوپنر امام الحق سے امیدیں تو بہت تھیں لیکن مبصرین نے ان کے اسٹرائیک ریٹ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
چھ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اوپنر نے پورے ایونٹ کے دوران صرف ایک ہی بار 50 رنز عبور کیے۔
صرف ایک نصف سینچری کی مدد سے 162 رنز بنانے والے بلے باز کو جیسے ہی ڈراپ کیا گیا، ان کے متبادل فخر زمان نے دو میچوں میں دھواں دار بیٹنگ کرکے پاکستان کو فتح سے ہم کنار کیا اور آخری میچ تک ٹیم کے ساتھ رہے۔
سوریا کمار یادیو ، بھارت
بھارتی بلے باز سوریا کمار یادیو کی ناکامیوں پر ان کے اِن فارم بلے بازوں نے تو پردہ ڈال دیا تھا۔ لیکن فائنل میں غیر متاثر کن کارکردگی دکھا کر انہوں نے اپنے مداحوں کو بری طرح مایوس کیا۔
جارح مزاج بلے باز نے 7 میچز میں بھارت کی جانب سے صرف 106 رنز اسکور کیے جس میں ایک 49 رنز کی اننگز شامل تھی۔
ٹیمبا باووما، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ نے ایونٹ میں سیمی فائنل تک رسائی تو حاصل کی۔ لیکن ان کی ٹیم کا سب سے کمزور پہلو ان کا کپتان ٹیمبا باووما رہے جن کا بطور اوپنر انتخاب ٹیم پر بھاری رہا۔
انہوں نے آٹھ میچز میں اننگز کا آغاز کرنے کے باوجود صرف 145 رنز بنائے جس میں 35 رنز ایک اننگز میں ان کا سب سے بڑا اسکور تھا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایونٹ میں ان کے ساتھی اوپنر کوئنٹن ڈی کوک نے چار سینچریاں اسکور کیں جب کہ دو میچوں میں ان کے متبادل ریزا ہینڈرکس نے ایک نصف سینچری کی مدد سے 97 رنز بنائے تھے۔
مہیش ٹھیک شانا، سری لنکا
سری لنکن آف اسپنر مہیش ٹھیک شانا سے ان کے مداح اچھی کارکردگی کی توقع لگائے بیٹھے تھے ، خاص طور پر اس لیے کیوں کہ ان کی ٹیم انجری مسائل کا شکار تھی۔
ایسے میں انہوں نے آٹھ میچز کھیل کر 63.66 کی اوسط سے صرف 6 وکٹیں حاصل کیں جس کو متعدد مبصرین مایوس کن کارکردگی قرار دے رہے ہیں۔
شکیب الحسن، بنگلہ دیش
گزشتہ ورلڈ کپ کے تیسرے بڑے اسکورر شکیب الحسن اس میگا ایونٹ میں اپنی بیٹنگ کا جادو نہ جگاسکے۔
چار سال پہلے دو سینچریوں اور پانچ نصف سینچریوں کی مدد سے 606 رنز اسکور کرنے والے بنگلہ دیشی کپتان نے اس بار صرف ایک ہی نصف سینچری اسکور کی۔
اس مرتبہ سات میچز کھیل کر انہوں نے صرف 186 رنز بنائے اور جس اننگز میں انہوں نے ففٹی کا ہندسہ عبور کیا اس میں ان کے متعدد کیچز فیلڈرز نے گرائے تھے۔
ایونٹ کے دوران سری لنکا کے اینجلو میتھیوز کو ٹائمڈ آؤٹ کرانے پر بھی ان پر سوشل میڈیا صارفین اور مبصرین دونوں نے خوب تنقید کی تھی ۔
مارک چیپ مین، نیوزی لینڈ
ویسے تو نیوزی لینڈ کی ٹیم نے مسلسل پانچویں مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا لیکن ان کے جارح مزاج بلے باز امارک چیپ مین کا بلا ایونٹ کے دوران خاموش ہی رہا۔
نچلے نمبروں پر بیٹنگ کرنےوالے کھلاڑی نے 8 میچز کھیل کر صرف 84 رنز بنائے، جس میں 39 رنز کی اننگز ان کی بہترین کوشش تھی۔
مارکس اسٹوئنس، آسٹریلیا
آسٹریلیا کی وائٹ بال ٹیم کے رکن مارکس اسٹوئنس کو پاکستانی شائقین میگا ایونٹ سے پہلے محمد حسنین کے بالنگ ایکشن پر اعتراض کرنے والے بلے باز کے طور پر جانتے تھے لیکن میگا ایونٹ میں مایوس کن کھیل پیش کرنا اب ان کی نئی وجہ شہرت بن سکتی ہے۔
ایونٹ میں چیمپئن ٹیم کے لیے 6 میچ کھیلنے والے آل راؤنڈر نے نہ تو بیٹنگ سے متاثر کیا نہ ہی بالنگ سے اور مجموعی طور پر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے 87 اسکور کیے، دو کیچز تھامے اور چار وکٹیں حاصل کیں۔