ٹیلی تھونز کے ذریعے فنڈ ریزنگ: 'ڈونرز کو رقم کے وعدے یاد دلانا پڑتے ہیں'

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان۔ فائل فوٹو

سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے چند روزقبل سیلاب زدگان کی مدد کے لیے امدادی رقم جمع کرنے کی مہم 'ٹیلی تھون' میں محض چند گھنٹوں کے دوران ساڑھے پانچ ارب روپے کا فنڈ جمع ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس دعوے کے بعد عوامی حلقوں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ کیا واقعی اس طرح کی ٹیلی تھون میں کیے گئے اعلانات اور وعدے حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں یا نہیں؟

ٹیلی تھون کے ذریعے امدادی رقم کا اعلان ہونے اور اس کے جمع ہونے سے متعلق ماہرین کی رائے منقسم ہے۔

پاکستان میں کام کرنے والی فلاحی تنظیم 'اخوت فاؤنڈیشن' کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ اس طرز کی مہم کو جانچنے کے لیے مختلف عوامل کو جاننا ضروری ہے۔ ان کے بقول بعض اوقات اس طرز کی مہم کے نتائج نوے فی صد تک بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ عطیات کس مقصد کے لیے جمع کیے جا رہے ہیں، فنڈ ریزنگ مہم کون چلا رہا ہے لیکن تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ فنڈ جمع کرنے کے لیے کون سی آبادی یا حلقے ہدف ہیں۔ آیا کہ امریکہ، یورپ، افریقہ کے رہائشیوں سے فنڈ جمع کرنا ہیں یا پھر ملک کے اپنے باسیوں سے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ فلاحی کاموں کے لیے رقوم جمع کرنے اور اسے خرچ کرنے کے حوالے سے فنڈ ریزر یا ادارے کی اپنی ساکھ بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پیسے کس مقصد کے لیے مانگے جا رہے ہیں، کہاں خرچ ہوں گے۔اس سے قبل اگر اس قسم کی مہم چلائی گئی تھی تو اس کی شفافیت کیا تھی۔

اخوت فاونڈیشن کے بانی کا کہنا تھا کہ فنڈ ریزنگ کے لیے ماحول کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ لوگوں کا رجحان کس جانب ہے۔ کیوں کہ بعض اوقات لوگ بار بار ایسی کالز پر تھک جاتے ہیں۔

ان کے بقول ٹیلی تھون مہم کے اختتام کے بعد لازمی ہے کہ اعلان کردہ شخصیات کو مناسب طریقے سے یاد دہانی بھی کرائی جائے۔ کیوں کہ بعض اوقات مخیر حضرات اپنی مصروفیات کے باعث فنڈ جمع کرانا بھول جاتے ہیں۔ ایسے میں تواتر کے ساتھ یاد دہانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

اس وقت پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ تاہم ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق ملک میں مخیر حضرات کی پھر بھی کمی نہیں ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اگر 50 فی صد آبادی غریب ہے تو اتنی ہی تعداد میں لوگ امیر بھی ہیں اور کچھ خیراتی اداروں کے بجٹ تو بعض صوبائی حکومتوں کے بجٹ سے بھی زیادہ ہیں اور وہ اربوں روپوں کے لنگر خانے چلاتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے 160 اضلاع میں سے 72 سیلاب کا شکار ہیں۔ جہاں لوگ غذائی قلت کے ساتھ ساتھ، خیموں، ادویات اور پینے کے صاف پانی کی کمی کا شکار ہیں اور حکومتی امداد کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات کی امداد کے بھی منتظر ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل بھی بہت سی امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے کی جانے والی ٹیلی تھون مہم کا حصہ رہ چکے ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں انہوں نے میر خلیل الرحمان کی فاؤنڈیشن 'پکار' کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ اسی طرح کرونا وبا کے دوران بھی اسی نوعیت کے ٹیلی تھون کا اہتمام کیا گیا تھا۔

عمران خان خود کو فنڈ ریزنگ کا چیمپئن خیال کرتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور نمل جیسے تعلیم ادارے فنڈ ریزنگ کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔

دیگر رفاہی اداروں کی طرح الخدمت فاونڈیشن کے رضا کار ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے الخدمت فاؤنڈیشن کراچی کے ترجمان سلمان شیخ نے بتایا کہ کسی بھی قسم کی قدرتی آفت کی صورت میں جماعت اسلامی کا ہر کارکن الخدمت کا رُکن بن جاتا ہے۔

سلمان شیخ کے مطابق دوسری شخصیات یا اداروں کے برعکس الخدمت کو ٹیلی تھون کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے، کیوں کہ عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف کراچی میں سیلاب متاثرین کے لیے 130 امدادی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں 10 ہزار سے زائد رضا کار حصہ لے رہے ہیں۔

اسد علی ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے ساتھ بطور اسٹیشن مینیجر وابستہ ہیں۔ ماضی میں وہ اسی نوعیت کی ٹیلی تھون منعقد کرنے میں شریک رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیلی تھون کرانے والا ادارہ جب کسی ٹی وی چینل سے رابطہ کرتا ہے تو ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس مقصد کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ ٹیلی تھون کئی گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے، لہذٰا ٹی وی چینل کے اپنے پروگرام متاثر ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ٹیلی تھون میں کیے گئے وعدے پورے ہونے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔ خاص کر جب رقم بیرون ملک سے آ رہی ہو۔

محمد نعیم صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے علاقہ طورو میں نیشنل بینک میں بطور برانچ مینیجر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی تھون یا آفت زدہ صورتِ حال میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے انہیں مختص شدہ بینک اکاؤنٹ مہیا کر دیے جاتے ہیں۔ جس کی روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والی آمدنی کا ڈیٹا شام کو اسٹیٹ بینک کو مہیا کر دیا جاتا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ حال ہی میں عمران خان کی جانب سے کی جانے والی ٹیلی تھون کے بارے میں تو وہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ البتہ سیلاب متاثرین کے حوالے سے وزیرِاعظم کی جانب سے اعلان کردہ بینک اکاونٹ میں عطیات آنے کی رفتار بھی بہت کم ہے۔