پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے اپنے والد ڈاکٹر دین محمد کی تصویر اٹھائے 30 سالہ سمی بلوچ درجنوں افراد کے ساتھ صوبہ بلوچستان سے دھرنا دینے اسلام آباد آئی ہیں۔
ایک چھوٹے سے میدان میں دھرنا دینے والے ان درجنوں افراد کا ایک ہی مطالبہ ہے، 'اپنے لاپتا عزیز و اقارب کی بازیابی'۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی سنجیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 2011 میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد ایسے افراد کو تلاش کرنا تھا جو کسی نہ معلوم وجہ سے لاپتا ہو چکے ہیں۔
تین رکنی یہ کمیشن سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں آج بھی کام کر رہا ہے۔ تاہم سمی بلوچ کا کہنا ہے کہ انہیں کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کم از کم آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے والد ڈاکٹر دین محمد کا آج تک کچھ پتا نہیں ہے۔
سمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے والد سے آخری بار 28 جون 2009 کو ملی تھیں۔ اس دن رات ایک بجے تک وہ اسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔
سمی بلوچ کا دعویٰ تھا کہ انہیں بظاہر سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کے کچھ افراد ایک گاڑی میں لے گئے تھے اور آج تک ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاتھوں میں تصویریں اٹھائے وہ اور ان جیسی کتنی ہی دیگر خواتین ایک شہر کے بعد دوسرے شہر میں دھرنے دیتی ہیں تو کبھی احتجاج کرتی ہیں۔ لیکن گم شدہ لوگوں میں سے کچھ افراد ہی آج تک بازیاب ہو سکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سمی کراچی کی ایک سرکاری یونیورسٹی سے ایم اے کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے دو بہن بھائی اور ہیں جب کہ ان کی والدہ اس واقعے کے بعد مستقل بیمار رہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے بہن اور بیمار ماں کو چھوڑ کر ایسے شہر شہر پھرنا آسان نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
ان کے ساتھ دوسری خاتون جو پریشانی میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں ان کا نام سیما بلوچ ہے۔ان کی کہانی بھی سمی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
سیما بلوچ کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے ہے اور ان کے بھائی شبیر بلوچ چار اکتوبر 2016 سے لاپتا ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے کئی سال ہو چکے ہیں۔ لیکن آج تک کوئی انہیں یہ نہیں بتا رہا کہ ان کا بھائی کہاں ہے اور اگر کسی ادارے کی تحویل میں بھی ہے تو اس کا قصور کیا ہے؟
سیما کے بقول وہ مسنگ پرسنز کے لیے کام کرنے والے کمیشن کے سامنے کئی بار پیش ہو چکی ہیں اور کمیشن کے افراد انہیں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کے بھائی کا پتا چلتے ہی ان کو اطلاع دی جائے گی۔ اس لیے وہ بار بار کمیشن کے چکر نہ لگائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں چین نہیں ہے۔ ان کے گھر میں کوئی فرد نہ سکون سے بیٹھ پاتا ہے۔ نہ آرام سے سو سکتا ہے۔ ان کے بقول وہ کیسے کمیشن میں بار بار نہ جائیں؟
سیما کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کا جو بھی جرم ہے وہ کم از کم انہیں بتایا جائے اور ملکی قوانین کے مطابق انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
سمی بھی اس مطالبے سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری کمیشن میں پوچھنے پر کوئی جواب نہیں آتا کہ ان کے والد نے کیا جرم کیا تھا؟
سمی بلوچ کہتی ہیں کہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان کے بقول 2016 میں بظاہر قانون نافذ کرنے والی ایک خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ان سے بھی پوچھ گچھ کی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ دن ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے لیے مزید اذیت ناک تھے۔ لیکن ان کے بقول انہیں تحویل میں زیادہ عرصہ نہیں رکھا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتی ہیں کہ انہیں اپنا جرم بھی معلوم نہیں جو اس پوچھ گچھ کی وجہ بنی۔
کیا ان کے والد کسی سیاسی تحریک کا حصہ تھے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد ‘بلوچستان نیشنل موومنٹ’ کے کارکن تھے لیکن ان کا کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں جس میں انہوں نے کسی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ لیا ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کے نجی ٹی وی چینل 'سما نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں انٹرویو میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں ان کی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی قانونی جواز کے بغیر کسی بھی پاکستانی شہری کو تحویل میں رکھنا ایک سنگین جرم قرار دے چکی ہیں۔
پاکستان کی مختلف عدالتوں میں گمشدہ افراد کے حوالے سے مقدمات کی سماعت ہوتی رہی ہے اور عدالتوں کی جانب سے لوگوں کو بازیاب کرنے کے بھی احکامات جاری ہوتے رہے ہیں۔ عدالتوں نے حکومت کو بعض لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو ماہانہ معاوضہ دینے کا بھی حکم دیا ہے۔
پاکستان میں برسرِ اقتدار آنے والی تمام حکومتیں قانون سازی کے ساتھ ساتھ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے مزید اقدامات کے عزم کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
دوسری جانب گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے متحرک ‘وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز’ کے چیئرمین نصراللہ بلوچ یہ تو نہیں کہتے کہ لاپتا افراد میں سے کسی نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے جرم کیا بھی ہے تو عدالتیں موجود ہیں جو انہیں سزا دے سکتی ہیں۔
نصر اللہ کی تنظیم ہی کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں یہ دھرنا ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اپنے ماموں لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ اسلام آباد کیا مطالبات لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سمی اور سیما تو ہمت کر کے گھروں سے باہر نکل آئی ہیں۔ لیکن دیگر سیکڑوں ایسی خواتین اور بچے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی اپنے پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق وہ انہی خاندانوں کا پیغام لے کر وفاقی دارالحکومت آئے ہیں کہ انہیں انصاف دیا جائے۔
نصر اللہ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے لیے کام کرنے والے کمیشن کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ کیوں کہ کئی کیسز ایسے ہیں جن میں شواہد موجود ہیں کہ کس ادارے نے کیا کیا لیکن ان پر کوئی پیش رفت نہیں کی جا رہی۔
کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2020 تک چھ ہزار سے زائد گمشدگی کے کیسز میں سے چار ہزار آٹھ سو سے زائد کیسز کو حل کیا جا چکا ہے۔
دوسری طرف انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری جبری گمشدگیوں سے متعلق قانون سازی کا عندیہ 2019 میں دے چکی ہیں مگر ابھی یہ قانون پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں 2020 میں کابینہ کی کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔
اس کے بارے میں سمی اور نصر اللہ بلوچ دونوں کا یہی کہنا ہے کہ انہیں اس کمیٹی سے کچھ امیدیں ضرور وابستہ ہیں کہ وہ جلد لوگوں کو بازیاب کرائے گی۔
نصر اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد آئے ہی اس لیے ہیں کہ وزیر اعظم کو یاد دہانی کروا سکیں کہ انہوں نے جس وجہ سے کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی ہے وہ اپنا کام دیے گئے چند ہفتوں میں مکمل کرے۔
'انتظار کرتے تھک چکے ہیں'
سیما کا کہنا ہے کہ ان کے بہن بھائی اب شبیر کا انتظار کرتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ اس لیے جہاں کہیں سے انہیں امید کی ایک کرن بھی نظر آتی ہے وہ اس کا پیچھا کرتی ہیں۔
بلوچستان سے اسلام آباد آمد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے وہ اس دھرنے میں اتنی دور آئی ہیں کہ ان کے بھائی کی بازیابی ممکن ہو سکے۔
گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گیے کمیشن کی کارکردگی پر انسانی حقوق کے کئی بین الاقوامی ادارے جن میں ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ اور ‘انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسسٹس’ بھی شامل ہیں، عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
ان کے جاری کردہ بیانات کے مطابق کمیشن اپنا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جس میں گمشدہ افراد کا سراغ لگانے کے ساتھ ان قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حساس ایجنسیوں کو جواب دہ بنانا بھی شامل تھا، جو گمشدگی کی مبینہ وجہ بنے۔
نصر اللہ اور ان جیسے دیگر افراد جن کے گھر والے لاپتا ہیں، ان کا یہی کہنا ہے کہ وہ اپنی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ تمام لاپتا افراد بازیاب نہ ہو جائیں۔