پاکستان میں غیر مسلم آبادی سے روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک اور ایذا رسانیوں کی خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں جو انسانی حقوق خصوصاً اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق ناکافی ریاستی اقدامات کی طرف انگشت نمائی کا باعث بنتی ہیں۔
تازہ ترین واقعہ گزشتہ ہفتے لاہور میں پیش آیا جہاں توہینِ مذہب کے الزام کی تفتیش کے دوران وفاقی تحقیقاتی اداے 'ایف آئی اے' کے اہلکاروں نے ساجد مسیح نامی شخص کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے مقدمے کے مرکزی ملزم کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت پر مجبور کیا جس پر مذکورہ شخص چوتھی منزل پر واقع تفتیشی کمرے سے نیچے کود گیا اور شدید زخمی ہو گیا۔
ساجد نے بعد ازاں ایک وڈیو میں یہ ساری روداد سنائی جس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا۔
ایف آئی اے حکام نے ملزم کے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تفتیش سے بچنے کے لیے خود عمارت سے چھلانگ لگائی۔
ایف آئی اے نے ساجد کے بیان کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی جس نے اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے کے چار اہلکاروں کے خلاف تفتیش میں غفلت کا ارتکاب کرنے پر محکمانہ کارروائی کی سفارش کی ہے۔
ساجد کے ایک رشتے دار پطرس مسیح پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر توہینِ مذہب پر مبنی مواد اپ لوڈ کیا تھا اور اسی ضمن میں تفتیش کے لیے ساجد کو بھی طلب کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے شاہدرہ کے علاقے میں مذہبی جماعت تحریکِ لبیک یارسول اللہ کے کارکنوں سمیت سیکڑوں افراد نے پطرس مسیح پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے دن بھر احتجاج کیا تھا جس پر پولیس نے ملزم کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کر لیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ساجد مسیح کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مفصل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ اور ملک میں غیر مسلم آبادی میں پائے جانے والے عدم تحفظ پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے رکن ندیم انتھونی کہتے ہیں کہ دورانِ تحویل ملزم کی حفاظت حکام کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ساجد مسیح کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ صورتِ حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
"دوران تحویل بندہ آپ کے سامنے (عمارت سے) گر گیا۔ کیسے گرا؟ آپ کے اردگرد کا ماحول اتنا عجیب ہے کہ آپ کو پتا ہی نیہں کہ اس کو رکھنا کیسے ہے۔ آپ تو سات تہہ خانوں میں چھپا کر رکھتے ہیں بندے کو، یہ کیسے گر گیا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاملے کو افہام و تفہیم اور قانون کے مطابق حل کیا جا سکتا تھا لیکن جس طرح کے حالات پیدا ہوئے وہ معاشرے پائی جانے والی عدم برداشت کو ظاہر کرتے ہیں۔
ندیم نے کہا کہ اس معاملے پر پورے معاشرے کو موردِ الزام تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن کچھ عناصر ایسے ضرور ہیں جو کسی خلا کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں جن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
"اب ایک فوٹو کا ایشو تھا جو کہیں سے ٹیگ ہو کے آئی۔ اس (پطرس مسیح) نے آگے فارورڈ کر دی۔ اس نے وہ خود تو نہیں بنائی۔ نہ اس نے کوئی کومنٹ کیا اس پر۔ اب چونکہ وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں۔ اسے سمجھ ہوتی تو وہ آگے کیوں فارورڈ کرتا؟ تو صرف اس بنیاد پر اس کو سمجھانے کے بجائے آپ اتنا بڑا بکھیڑا کریں، آپے سے باہر ہو جائیں تو وہ مناسب نہیں۔۔۔ ایف آئی اے کا کام وہ جانچ کرنا تھا کہ اس کے موبائل سے کچھ مواد شیئر ہوا یا نہیں۔ اس سے زیادہ کوئی بات نہیں تھی۔ باقی کام تھا پولیس کا۔"
ان کے بقول ساجد مسیح کے ساتھ پیش آنے والی صورتِ حال بظاہر ایسے ہی لگتی ہے جیسے "کسی چودھری کے ڈیرے پر کسی مزارع کو لے آؤ اور اس کی سارے مل کر پھینٹی لگائیں۔"
حالیہ برسوں میں غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کے لیے پرعزم ہے لیکن اس کے باوجود زمینی حقائق مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری برائے بین المذاہب ہم آہنگی جارج خلیل اس ساری صورتِ حال کا ذمہ دار اقلیتوں سے متعلق معاشرتی رویوں کو قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی صورتِ حال میں بہت پشیمانی محسوس کرتے ہیں کیونکہ حکومت میں ہونے کے باوجود وہ اپنی مسیحی برادری کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
"مائینڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں بھی اس وقت تمام سیاسی لوگوں کو متحد ہو کر کوئی ایسا دباؤ بڑھانا چاہیے جس سے اقلیتوں کو تحفظ ملے۔ یقیناً ہم گلٹی فیل کرتے ہیں۔ ہمارا دل روتا ہے کہ ہم اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے لیے جس طرح کے قانون بنانے چاہیے تھے، اس طرح کے قانون نہیں بنا پائے۔"
اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے پطرس مسیح کے مبینہ اقدام پر ہونے والے احتجاج کے باعث بہت سے مسیحی خاندان خوف کے باعث اپنے گھر بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
لیکن بعد ازاں بعض مسلمان مذہبی رہنماؤں نے صورتِ حال کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے وہاں جا کر لوگوں کو پرامن رہنے اور مسیحیوں کو بلا خوف اپنے گھروں میں واپس آنے کا کہا تھا جس پر صورتِ حال بدستور معمول پر آرہی ہے۔