پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیلم حسنین کی طرف سے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پیش کی گئی ایک قرار داد کو ایوان نے منگل کو منظور کر لیا ہے۔
بیلم حسنین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے فوری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کی ترقی اور بہتر تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں آباد تمام مذاہبی اقلیتوں کے ساتھ تعاون اور برداشت کے رویوں کو پروان چڑھایا جائے۔
’’میں نے تو یہ تجویز دی کہ مساجد میں جب جمعے کا خطبہ ہوتا ہے تو اس (مذہبی ہم آہنگی) پر زیادہ زور دینا چاہیئے تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو نہ کہ ہم صرف مار دھاڑ میں ہی پڑے رہیں۔‘‘
ایک معروف مذہبی شخصیت ڈاکٹر راغب نعیمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذہبی ہم آہنگی کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھانی چاہیئے۔
’’مذہبی ہم آہنگی کی آواز ہر جگہ سے اٹھنی چاہیئے بھلے سے یہ محراب کا منبر ہو یا کوئی عبادت گاہ ہو یا کوئی سماجی ادارہ ہو یا کوئی سرکاری ادارہ ہو، ہر جگہ سے مذہبی آہنگی کی بات اٹھنی چاہیئے اور جتنی زیادہ مذہبی ہم آہنگی کی باتیں اٹھیں گی مختلف اداروں سے اتنا ہی زیادہ ہم معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ پاتا ہوا دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک بیانیے کی ضرورت بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ معاشرے میں بسنے والے تمام طبقات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔
’’پہلے درجے میں تو یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے ۔۔۔ لیکن اس میں دو تین کرداروں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ مذہبی راہنماؤں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے، ہم استادوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے والدین اور معاشرے کا کردار بھی کسی طریقے سے ایسا نہیں ہے کہ جس کو ہم پس پشت ڈال دیں تو یہ چار ایسے اسٹیک ہولڈرز ہیں جہاں سے اخلاق جنم لیتا ہے جہاں سے بچوں کی تربیت ہوتی ہے اور جہاں سے مذہبی ہم آہنگی اور دیگر امور کا پرچار ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور سردار یوسف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ حکومت نے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور ملک میں آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے مذہبی تہواروں کو بھی خصوصی طور پر منایا جاتا ہے۔
تاہم رکن قومی اسمبلی بلیم حسینن کا کہنا تھا کہ محض سرکاری طور پر تقاریب منانے سے بات آگے نہیں بڑھے گی بلکہ اُن کے بقول ہر سطح پر اس کے لیے کوشش کی جانی چاہیئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حقیقی امن کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں برداشت اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے کے رویے کو آگے بڑھایا جائے۔