پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
شہزاد اکبر نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم کو اپنا استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کے بقول، "مجھے امید ہے کہ عمران خان کی قیادت میں احتساب کا عمل کامیابی سے جاری رہے گا اور یہ تحریک انصاف کا منشور ہے۔"
شہزاد اکبر نے وضاحت کی کہ وہ تحریکِ انصاف کے ساتھ منسلک رہیں گے اور بطور قانون دان بھی کام کرتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر گزشتہ چند روز سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان شہزاد اکبر کو عہدے سے ہٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم حکومتی حلقوں نے ان خبروں کو افواہیں قرار دیا تھا۔
پیر کو وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی شہزاد اکبر کی ٹوئٹ کے جواب میں کہا کہ" آپ نے شدید دباؤ میں کام کیا اور یہ کام مافیاز کی موجودگی میں اتنا آسان نہیں تھا۔
انہوں نے شہزاد اکبر کی تعریف میں لکھا کہ جس طرح آپ نے کام کیا اور کیسز کو چلایا وہ قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے شہزاد اکبر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی اہم کام آپ کے منتظر ہیں۔
یاد رہے کہ شہزاد اکبر پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو شہزاد اکبر کو وزیرِ اعظم کا معاونِ خصوصی برائے احتساب مقرر کیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر قومی احتساب بیورو (نیب) میں بطور ڈپٹی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں نیب میں ان کی خدمات لی گئی تھیں۔
ڈرون حملوں کے متاثرین کے وکیل
شہزاد اکبر راولپنڈی کے قریبی علاقے گوجرخان سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور میں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے لندن سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
بیرسٹر شہزاد اکبر قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ سال 2004 سے 2008 تک بطور سپیشل پراسیکیوٹر کام کرتے رہے جس کے بعد انہوں نے یہ ادارہ چھوڑ دیا۔
شہزاد اکبر امریکی ترقیاتی ادارہ یوایس ایڈ کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ بھی کام کرتے رہے۔
سال 2010 میں شہزاد اکبر پہلی مرتبہ اس وقت منظرِِ عام پر آئے جب پاکستان کے قبائلی اضلاع میں امریکی ڈرون حملے عروج پر تھے۔ انہوں نے ڈرون حملوں کے متاثرہ شخص کریم خان کے ساتھ مل کر ڈرون حملوں کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی۔
شہزاد اکبر نے کریم خان کے ساتھ مل کر پاکستان کی عدالتوں میں دو کیسز فائل کیے جن میں امریکی سفارت خانہ کو فریق بنا کر کریم خان کے اہلِ خانہ کے لیے 500 ملین ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا۔ جب کہ دوسرے کیس میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف اور لیگل کونسل کو ملک سے بیدخل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ اور شہزاد اکبر
جسٹس فائز عیسیٰ اور شہزاد اکبر تنازع اس وقت شروع ہوا جب شہزاد اکبر کے بنائے گئے اثاچہ جات ریکوری یونٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوایا۔
یہ ریفرنس اسلام آباد کے ایک غیرمعروف صحافی کی درخواست پر بنایا گیا تھا جس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ نے اس ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور بعد ازاں ایک طویل عدالتی جنگ کے بعد یہ ریفرنس ختم کر دیا گیا ۔
عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تمام الزامات ختم کر دیے۔ ان کے خلاف پہلے فیصلے میں دیا جانے والا حکم جس میں ایف بی آر کو ان کے اثاثوں کی چھان بین کرنے کا کہا گیا تھا، عدالت کے نظرِثانی بینچ نے اس فیصلہ کو بھی ختم کر دیا۔
اس ریفرنس کے حوالے سے شہزاد اکبر پر شدید تنقید کی گئی اور ان کے اثاثہ جات ریکوری یونٹ پر مختلف حساس اداروں کی مدد کا الزام لگایا گیا جس کی مدد سے انہوں نے جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف بیرون ملک جائیدادوں کی معلومات حاصل کیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی عدالت میں دائر کردہ درخواست میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت کو ہی چیلنج کر دیا ۔
بعد ازاں جسٹس فائز کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے مختلف اوقات میں لکھے گئے خطوط میں شہزاد اکبر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
شہزاد اکبر اور ملک ریاض
شہزاد اکبر کا نام ایک اور تنازع میں بھی اس وقت لیا جانے لگا جب برطانیہ سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے لندن میں ہونے والے تصفیے کے نتیجہ میں 190 ملین پاؤنڈ پاکستان حکومت کو ملے لیکن یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہونے کے بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرا دی گئی۔
ملک ریاض کے خلاف برطانوی ادارے این سی اے نے تحقیقات کی تھیں اور ان کی لندن میں موجود ایک پراپرٹی کے حوالے سے برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ پاکستان میں کرپشن کے ذریعے کمائی گئی رقوم سے خریدی گئی ہے۔
شہباز شریف کے خلاف کارروائی اور شہزاد اکبر
شہزاد اکبر کا نام شہباز شریف کے خلاف کیسز میں بھی لیا جاتا رہا اور ہر کچھ دن کے بعد شہزاد اکبر کی طرف سے ٹوئٹس کی جاتی رہیں کہ شہباز شریف کی ٹی ٹیز اور دیگر کرپشن کے نئے ثبوت سامنے آرہے ہیں۔
لیکن ان سے جڑا ایک اور تنازع اس وقت سامنے آیا جب جولائی 2019 میں شہباز شریف کے خلاف برطانوی اخبار ڈیلی میل میں ایک صحافی ڈیوڈ روز نے خبر شائع کی۔
خبر جس میں دعویٰ کیا گیا کہ صوبہ پنجاب کے لیے برطانیہ نے 50 کروڑ پاؤنڈز کی امداد دی۔ امداد کے لاکھوں پاؤنڈز برطانیہ منتقل کیے گئے جب کہ شہباز شریف نے کچھ رقم خرد برد کی۔ البتہ شہبا زشریف ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
استعفے کی وجہ کیا ہے؟
اس استعفیٰ کی اب تک حکومتی سطح پر کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ،شہزاد اکبر سے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ٹیلی فون کالز اور پیغامات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ شہزاد اکبر صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے وکالت کے کریئر کو زیادہ وقت دینا چاہتے ہیں۔
تاہم اس بارے میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بنائے جانے والے کیسز کی پیش رفت سے خوش نہ تھے ، کابینہ اجلاسوں میں بھی بعض وزرا کی طرف سے شہزاد اکبر پر تنقید کی گئی جس کے بعد پیر کو شہزاد اکبر مستعفی ہوگئے۔
سینئر صحافی کامران خان نے اس استعفیٰ کے حوالے سے ٹوئٹ کی اور کہا کہ مشیر احتساب شہزاد اکبر کا استعفیٰ عمران خان کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔ عمران خان کا سب سے بڑا وعدہ کرپشن کا خاتمہ کرپٹ مافیا کو سزائیں لوٹی دولت کی واپسی کا بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد ثابت کر دوں گا کہ ان کے دورِ حکومت میں کرپٹ مافیا کی اعانت ہوئی۔
سینئر صحافی اور چینل 24 نیوز کے ڈائریکٹر نیوز میاں طاہر نے ٹوئٹ کی کہ عمران خان شہزاد اکبر سے ناراض تھے اور ناراضگی کی بڑی وجہ شہباز شریف کے خلاف کیس انجام تک نہ پہنچانا تھا - میڈیا میں بھی وہ شہباز شریف کے خلاف بیانیہ کو اس قدر مؤثر انداز میں ثابت نہ کرسکے جس کی عمران خان کو ضرورت تھی۔