وزیرِ اعظم پاکستان نے چین سے درخواست کی ہے کہ توانائی کے شعبے میں قرضے کو ری شیڈول کیا جائے۔ چین کے تعاون سے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں 14 منصوبے لگائے جا چکے ہیں۔ پاکستان نے توانائی کے منصوبوں میں چین کو 16 ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے: معاشی تجزیہ کار اگر چین نے پاکستان کو یہ رعایت دی تو دیگر ممالک بھی چین سے یہ تقاضا کریں گے: ماہرین |
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ واجب الادا قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے چینی قیادت کو خط لکھا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جب کسی حکومتی عہدیدار نے اس بات کا اعلان کیا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت ملک میں کوئلے، پن بجلی، ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے 14 بڑے پراجیکٹس لگائے جا چکے ہیں جب کہ سات تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اپنی کابینہ کے اجلاس میں بتایا کہ انہوں نے چینی قیادت کو خط لکھ کر پاکستان کے ذمے واجب الادا قرض ری شیڈول کرنے کی درخواست کی ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کے بقول پاکستان نے توانائی کے منصوبوں میں چین کو 16 ارب ڈالر قرض دینا ہے۔ اس قدر قرضے کی آئندہ چند ماہ یا ایک دو برسوں میں ادائیگی ممکن نہیں ہے۔
اسی لیے پاکستان کو چینی قیادت سے قرضوں کی ری پروفائلنگ کی درخواست کی ہے۔ خیال رہے کہ توانائی کے شعبے میں دیا گیا یہ قرضہ دیگر شعبوں میں دی گئی فنڈنگ یا قرضوں سے الگ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیبٹ ری پروفائلنگ کیا ہے؟
ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق قرضوں کی ری پروفائلنگ سے مراد کسی ملک کی جانب سے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول کو تبدیل کرنا، اسے کسی اور قرضے میں تبدیل کرنا یا اس بارے میں گفت و شنید کرنے کو ڈیبٹ ری پروفائلنگ قرار دیا جاتا ہے۔
ایسے میں قرض دہندہ ملک مزید قرضے جاری کر کے پہلے سے دیے گئے قرضوں کی ادائیگی کو آسان بناتا ہے یا پھر پہلے سے موجود قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول میں تبدیلی لا کر اس کے ادا کرنے کی تاریخوں میں توسیع کر دی جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں ڈیبٹ ری اسٹرکچرنگ کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ اس سے مراد قرضوں کی ادائیگی میں اس طرح کی تبدیلی لانا ہے جس سے قرضوں کی کُل حجم میں کوئی کمی واقع ہو۔ ڈیبٹ ری اسٹرکچرنگ کی درخواست عام طور پر وہ ممالک کرتے ہیں جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوں۔
ماہر معاشیات عمار حبیب کا کہنا ہے کہ چینی حکام کو ڈیبٹ ری اسٹرکچرنگ کا لفظ پسند نہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ فرض کریں کہ کسی ملک نے ایک ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے اور وہ قرض دہندہ ملک سے کہے کہ ہم 50 کروڑ ڈالر ہی واپس کر سکتے ہیں اور وہ بھی پانچ سال کے بجائے 15 سال میں۔۔۔اگر چین ایسا کرنے لگ جائے تو اسے دیگر ممالک سے بھی ایسی درخواستیں آنے لگ جائیں گی۔
اُن کے بقول چین نے تو بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹو میں دنیا کے بہت سے ممالک بالخصوص افریقی ممالک کو قرضہ دے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھی ڈیبٹ ری شیڈولنگ کی درخواست کی ہے اور توانائی کے قرضوں کی ادائیگی میں رعایت طلب کی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیرِ توانائی اویس لغاری کی قیادت میں ایک وفد چینی حکام سے ملاقات کرنے اور انہیں اس حوالے سے قائل کرنے چین بھی گیا تھا۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومتی وفد کو خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر غالباً اب وزیرِ اعظم شہباز شریف کو یہ کام خود کرنا پڑا ہے اور اسی لیے انہوں نے چینی حکام کو توانائی کے شعبے میں قرضہ ری شیڈول کرنے سے متعلق خط لکھا ہے۔
تاہم عمار حبیب کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ چین پاکستان کے قرضے ری شیڈول کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین نے جن ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے ان میں سے ہر ملک کے خاص معاشی و سیاسی حالات ہوتے ہیں چاہے وہ بنگلہ دیش ہو، یا کینیا یا ایتھوپیا یا پاکستان۔
اُن کے بقول اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس عمل کو شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ عمل چند دنوں یا چند ہفتوں میں مکمل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں کئی مہینے اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔
ڈیبٹ ری پروفائلنگ کی نوبت کیوں آئی؟
عمار حبیب کا کہنا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ ایک دہائی میں ملک میں لگائے جانے والے مختلف بجلی کے کارخانوں کے لیے چین سے جو قرض لیا اس کی مالیت اس وقت 16 ارب ڈالر کے لگ بھگ جا چکی ہے۔
اُن کے بقول معاملات اس وقت خراب ہوئے جب پاکستانی روپے کی قدر پچھلے دو تین برسوں میں بہت زیادہ گری اور روپیہ 160 سے گر کر 280 روپے فی ڈالر تک پہنچ گیا۔ جب کہ اس میں مزید گراوٹ کی بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے روپے کی اس قدر گری ہوئی قدر میں ادائیگی بھونچال بنی ہوئی ہے۔
توانائی کے شعبے میں مربوط پلاننگ کے فقدان کے باعث صورتحال خراب ہوئی
لاہور میں مقیم ماہر توانائی اسد محمود کا کہنا ہے کہ چین سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی نوبت اس لیے پیش آئی کیوں کہ پاکستانی معیشت جس قدر بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی توقع کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب یہ پاور پلانٹس لگائے جا رہے تھے اس وقت یہ بات مدِ نظر رکھی گئی تھی کہ جلد ہی چین کی بہت سی انڈسٹریز پاکستان منتقل ہو جائیں گی جس سے روزگار ملنے کے ساتھ بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوگا۔ لیکن کارخانے تو لگ گئے مگر انڈسٹریز شفٹ نہ ہوئیں اور یوں یہ بجلی کارخانے معیشت کے لیے بوجھ بن گئے۔
اسد محمود کا کہنا تھا کہ اس میں سب سے اہم چیز توانائی کے شعبے میں کسی مربوط پلاننگ کا فقدان تھا۔ اگر تمام وزارتیں اور حکومتی ایجنسیاں مل کر کام کرتی تو وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور اب ریلیف کے لیے ڈیبٹ ری پروفائلنگ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیوں کہ حکومتِ پاکستان نے اس حوالے سے بجلی گھروں کے کارخانوں کو لگانے کے لیے منافع کی تحریری ضمانتیں دے رکھی ہیں۔
لیکن اسد محمود کے خیال میں بھی انہیں امید ہے کہ چین پاکستان کے قرضوں کی ری پروفائلنگ کر دے گا۔ لیکن یہ ابھی معلوم نہیں کہ قرضوں کی ری پروفائلنگ کے لیے کیا شرائط رکھی جاتی ہیں اور شاید یہ باتیں عوام تک لائی بھی نہ جائیں۔ اس پورے عمل میں شفافیت کلیدی کردار ادا کرے گی کہ پاکستان کی جانب سے چینی حکام کو کس قسم کی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔
چین سے ڈیبٹ ری پروفائلنگ پر بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے؛ وزیر توانائی
ادھر وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے پیر کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین سے توانائی کے شعبے میں مذاکرات میں پیش رفت کافی اچھی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے وہ چینی کارخانے جو درآمد شدہ کوئلے سے چلائے جاتے ہیں ان کی مقامی کوئلے پر منتقلی اور قرضوں کی ری پروفائلنگ کے ایشوز کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ساتھ مل کر بہت تیزی سے اس پر کام کرنے کا بھی عندیہ دے گیا ہے۔