پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ اور ایاز صادق کے ابھی نندن بیان کے بعد ڈی جی آئی اس پی آر کے بیان کے سےمسلم لیگ(ن) مزید مشکلات کا شکار نظر آ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت خود بند گلی میں ہے، اگر یہی بیانیہ جاری رہا تو آنے والے دنوں میں پارٹی میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔
اسٹیبشلمنٹ اور حکومت سے مذاکرات کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں اطراف کسی قسم کی لچک فی الحال موجود نہیں جس کی وجہ سے بات چیت کے دروازے نہیں کھل رہے، لیکن ایسا کرنا حکومت اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
پاکستان کی حالیہ دنوں کی سیاست میں ابھی نواز شریف کے سخت بیانات کی گونج موجود تھی کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ابھی نندن کی رہائی کے حوالے سے جو بیان دیا، اس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کر کے مسلم لیگ (ن) کے حالیہ بیان کی تردید کر دی ہے۔
پریس کانفرنس کے بعد غیر رسمی گفتگو میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج میں ہر سطح پر سیاسی بیانات پر سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ادارے کا سربراہ اور تمام رینکس ایک ہی چیز ہے۔ جب کسی ادارے کے سربراہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا مطلب پوری فوج کو نشانہ بنانا ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایاز صادق کے بیان کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا کہ فوج میں مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کی پذیرائی نہیں ہے۔
نواز شریف خود بند گلی میں ہیں
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت نواز شریف خود ایک بند گلی میں ہیں۔ نواز شریف سزا یافتہ ہیں، مفرور ہیں، انہیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ نواز شریف کے پاس آپشن تھا کہ وہ خود کو فی الحال سیاست سے دور کر لیتے اور اپنی جگہ پر کسی اور کو آنے دیتے۔ لیکن ہمارے ہاں سیاست عموماً نظریات کی بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے، اور پارٹی ان شخصیات کی اسیر ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی باتیں اس وقت اہم ہیں اور ان کا جواب بھی آنا چاہیے لیکن وہ جو باتیں کر رہے ہیں، وہ پارٹی کی سیاست سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ پارٹی میں دو واضح نظریات اور سوچ پائی جاتی ہے کہ مصلحت کی سیاست کی جائے۔ تصادم سے فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ سوچ شہباز شریف کی ہے، لیکن ووٹ بنک نواز شریف کا ہے اور یہ گروپ سمجھتا ہے کہ مفاہمت اور مصلحت کی سیاست سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا اور اسی سیاست کی وجہ سے نواز شریف نااہل ہوئے، انہیں سزا ہوئی، انتخابات میں دھاندلی ہوئی، اس طرز سیاست سے سیاسی طور پر صرف نقصان ہوا۔
مظہر عباس کے بقول پارٹی کے اندر ان دو نظریات کی جنگ ہے۔ نواز شریف کا جو بیانیہ ہے، اس کی دلیل میں انہوں نے بہت زیادہ ٹھوس ثبوت نہیں دیے۔ انہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات لگائے ہیں۔ لیکن جب ان سے سوال ہوں گے کہ ان سب کے باوجود آرمی چیف کی توسیع کے موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں ووٹ کیوں دیا۔ ان سوالوں کے جواب بھی انہیں دینے ہوں گے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے مزاحمت کی سیاست اختیار کر لی ہے اور ان کی جماعت ن لیگ کے ارکان اس پالیسی کی حمایت نہیں کرتے جس کی وجہ سے ن لیگ میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ تاہم، بین الاقوامی حمایت سے وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر انہیں بھارت کی مدد مل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ اور بعض ممالک ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ سفارتی سطح پر انہیں کچھ مدد مل سکتی ہے۔ اندرونی طور پر ان کے لیے مشکل ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مستقل طور پر اپنی سیاست کو ایسے چلائیں گے یا اس بیانیے کی مدد سے وہ اپنے مسائل خاص طور پر ان کے خلاف جو کیسز ہیں، ان میں کچھ ریلیف حاصل کر سکیں گے۔
مسلم لیگ(ن) کو بیانیہ پر غور کی ضرورت ہے؟
مظہرعباس کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو اپنے موقف پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں ایاز صادق کا جو واقعہ ہوا یا ماضی میں مریم نواز سخت جملے کہتی رہیں، یہ نواز شریف کے لیے خاصا چیلنجنگ ہو گا کہ وہ پنجاب میں اس بیانیے کو سیل کر سکیں۔ اگر وہ اس بیانیے کو سیل کر سکتے ہیں اور لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے لیے بہت مسئلہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں جو جلسے ہونے جا رہے ہیں، ان میں اگر لوگ بڑی تعداد میں آئے، عوام ان کے ساتھ ہوئے تو معلوم ہو جائے گا کہ لوگ نواز شریف کے ساتھ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے مسائل ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ن لیگ میں توڑ پھوڑ شروع ہو جائے گی۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ نواز شریف نے تصادم کی جو سیاست اختیار کی اس میں مسائل ہیں۔ ان کی اپنی جماعت میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایسا تصادم نہیں چاہتے۔ پاکستان کی سیاست میں نواز شریف کی انٹری ضیاالحق کے دور میں فوج کی مدد سے ہی ہوئی۔ اب ان کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور انہیں ریسکیو نظر نہیں آ رہا۔ اسی وجہ سے انہوں نے فوج سے ٹکراؤ لیا ہے۔
مظہر عباس نے کہا کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو بڑھانا چاہتے ہیں تو وہ کس طرح آگے بڑھے گا۔ پنجاب ن لیگ کا بیس ہے اور فوج میں بھی زیادہ تر لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ پنجاب کس طرح ن لیگ کو رسپانس کرتا ہے۔ یہ ہی اس تمام معاملے کا ٹرننگ پوائنٹ ہو گا۔
اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے مسلم لیگ (ن) کے مذاکرات ممکن ہیں؟
مذاکرات کے حوالے سے مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف جو لائن لے رہے ہیں وہ مذاکرات کی لائن نہیں ہے۔ اگر وہ عمومی طور پر بات کرتے تو الگ بات تھی، لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل رینکس کے حوالے سے جو بات کی کہ سپاہی سے لے کر سپہ سالار سب ایک بات پر ہیں، یہ بات نواز شریف کے بیانیے کے مکمل خلاف ہے جس میں وہ فوجی جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر تنقید کرتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت حال میں جب تک وہ اپنے بیانیہ میں تبدیلی نہیں لاتے اس وقت تک مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
SEE ALSO: پی ڈی ایم کا کوئٹہ میں جلسہ: اپوزیشن رہنماؤں کی اداروں اور حکومت پر تنقیدحسن عسکری نے کہا کہ رویوں میں جب تک نرمی پیدا نہیں ہوتی اور ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، مذاکرات ہونا مشکل لگ رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) وزیراعظم کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور حکومت اپوزیشن سے ملاقات کو انہیں این آر او دینا سمجھتی ہے، لہذا جب تک ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے لچک پیدا نہیں ہو گی، اس وقت تک مذاکرات ہونا بہت مشکل نظر آ رہے ہیں۔
تجزیہ کار ایک طرف، لیکن اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ فضل الرحمان کسی قسم کے مذاکرات کے حق میں نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب اپوزیشن مذاکرات کے حق میں ہی نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال میں صرف نئے انتخابات مسائل کا حل ہیں۔
نوازشریف کا بیانیہ ہر نئی تقریر میں مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ اس بارے میں نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کا موقف ہے کہ نوازشریف کو پارٹی ورکرز کے دباؤ پر سخت بیانہ اختیار کرنا پڑا۔
محمد زبیر نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد سے ہی ہماری پارٹی کے ورکرز کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف سازش ہوئی، لیکن پارٹی کی طرف سے سخت موقف نہیں اپنایا گیا۔ اس وجہ سے نواز شریف کو سزا ہوئی اور انہیں جیل میں جانا پڑا۔ لہذا نواز شریف کو پارٹی کارکنوں کے کہنے پر حقیقت کو سامنے لانا پڑ رہا ہے۔
سیاسی امور کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ن لیگ نے ہمشہ مفاہمت کی سیاست کی، لیکن موجودہ دور حکومت میں ان کی مشکلات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں اور ایسے میں جب انہیں مذاکرات کا راستہ نہیں ملا تو انہوں نے مزاحمت کی پالیسی اختیار کر لی۔ لیکن شاہد خاقان عباسی کی طرف سے مذاکرات کے بارے میں لگاتار بات یہ اشارہ کرتی ہے کہ اگر کسی سطح پر بات چیت کا دروازہ کھولا گیا تو مسلم لیگ (ن) سمیت اپوزیشن مذاکرات کی میز پر بھی آ سکتی ہے۔