پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقے کوہستان میں ایک اور خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
کولئی پالس کوہستان پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مسعود خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم اس واقعے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
مسعود خان کے مطابق اس واقعے میں ایک خاتون کو بچا لیا گیا ہے جن کی ایک روز قبل ہی شادی ہوئی تھی۔
ماضی میں بھی خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص ہزارہ ڈویژن کے مانسہرہ اور کوہستان کے اضلاع میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 2012 میں کوہستان کے گاؤں 'غدر پلاس' ميں ايک شادی کی تقريب میں دو لڑکوں کے رقص جب کہ پانچ لڑکيوں کے تالياں بجانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
ویڈیو کا یہ معاملہ مقامی جرگے میں گیا۔ جہاں جرگے نے ان لڑکیوں کے قتل کا فیصلہ کیا بعد ازاں مبینہ طور پر ان لڑکیوں کو قتل کر دیا گيا تھا۔
اس مقدمے کی پیروی کرنے والے افضل کوہستانی سمیت اُن کے چار بھائیوں کو بھی بعدازاں مختلف واقعات میں قتل کر دیا گیا تھا۔
کولئی پالس میں مواصلاتی ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے قتل ہونے والی خاتون کے کسی قریبی رشتے دار سے رابطہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی مقامی قبائلی رہنما سے رابطہ ہوا۔
پولیس افسر مسعود خان نے تصدیق کی ہے کہ اس علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولیات اور موبائل فون سگنلز نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لڑکوں کے ساتھ تصاویر بنوانے کا الزام
کوہستان کولئی پالس کے تھانہ میں 24 نومبر کو درج مقدمے کے مطابق مقتولہ اور ایک دوسری لڑکی پر الزام تھا کہ انہوں نے علاقے کے دو نوجوانوں کے ساتھ موبائل فون پر تصاویر بنوائیں۔
ایف آئی آر کے بعد تصاویر وائرل ہونے کے بعد مقتولہ کے والد اور چچا نے آپس میں مشورے کے بعد پستول سے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تصاویر وائرل ہونے کے بعد معاملہ مقامی روایتی قبائلی جرگے کے سامنے آیا اور جرگے کے فیصلے کے تحت ہی خاتون کو ان کے والد اور چچا نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ تاہم ایف آئی آر میں جرگے کے فیصلے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس مسعود خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے اس دور افتادہ علاقے میں بر وقت پہنچ کر لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دیا اور باقاعدہ مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔
مسعود خان نے مزید بتایا کہ وائرل ہونے والی تصاویر میں مقتولہ کے علاوہ ایک اور لڑکی اور دو لڑکے بھی ہیں جو روپوش ہو گئے ہیں جب کہ دوسری لڑکی جن کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی حفاظتی تحویل میں لے کر عدالت میں ان کا بیان ریکارڈ کرا دیا گیا ہے۔ بعدازاں خاتون کو اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: ایچ آر سی پی کی سندھ سے متعلق رپورٹ: 'پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو چیزیں بہتر ہوں گی'مسعود خان کے مطابق جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے یہ بہت دوردراز کا علاقہ ہے، وہاں شدید سردی اور برف باری ہو رہی ہے، اسی وجہ سے نامزد ملزمان کی گرفتار میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نگراں وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا جسٹس (ر) سید ارشد حسین نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔