"پاکستان خصوصاً سندھ میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔ ایک دو واقعات کو جواز بنا کر یہ کہنا کہ سندھ میں اقلیتیں محفوظ نہیں یا ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے اس جگہ مثالی بین المذاہب ہم آہنگی موجود ہے اور ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتیں پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔"
یہ کہنا ہے نگراں وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا جو سندھ میں انسانی حقوق سے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ پر ردِعمل دے رہے تھے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ میں صوبے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، اقلیتوں کو درپیش مسائل، سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی کمی، تعلیم و صحت اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کیا ہے؟
آٹھ ستمبر کو جاری کردہ ایچ آر سی پی کی اس فیکٹ فائندنگ رپورٹ میں سندھ کے علاقوں میں بڑھتے مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اس رپورٹ کو مرتب کرتے ہوئے ان علاقوں میں موجود وکیلوں، سماجی کارکنان، متاثرہ افراد، پولیس، سیاسی شخصیات، صحافیوں، طلبہ، سول سوسائٹی کے افراد سے ملاقاتیں بھی کی گئیں۔
صوبے کے مختلف علاقوں میں بڑھتے مسائل پر بات کی گئی ہے جن میں خواتین کے قتل، بد امنی، صحت و تعلیم کے مسائل، اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و امتیازی سلوک شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں بہت سے واقعات کو بھی رپورٹ کیا گیا ہے جو سندھ میں پیش آئے ہیں۔
ایچ آر سی پی کے مطابق رپورٹ کا مقصد صوبے میں فوری بہتر گورننس اور احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کا مطالبہ ہے۔
سندھ سے آئے دن کچے کے ڈاکوؤں کا پولیس سے مقابلے کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
رواں ماہ کشمور میں ہندو برادری کی جانب سے مغویوں کی بازیابی کے لیے ہونے والا احتجاج ہو، رانی پور میں پیر اسد شاہ کے گھر کمسن فاطمہ کا مبینہ قتل یا پھر غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے واقعات ہوں، آئے روز ایسی خبریں سندھ سے آنا معمول ہے۔
رپورٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کہتے ہیں کہ ایچ آر سی پی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اُٹھاتا ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے اس پر آواز اُٹھائی کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران 85 ہزار افراد دہشت گردی کی نذر کیسے ہو گئے؟
اُن کا کہنا تھا کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے سندھ حکومت 20 لاکھ مکانات کی تعمیر کا کام شروع کر چکی تھی، لیکن ابھی صرف 50 ہزار مکانات مکمل ہوئے تھے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر فنڈز روک دیے گئے۔
سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ سیلاب جیسی قدرتی آفت کے بعد جہاں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا وہیں امن و امان کو خراب کرنے والوں کو مزید مواقع ملے ہیں۔
اقلیتوں کے حقوق، کمسن ہندو لڑکیوں کی شادی اور جبری تبدیلیٔ مذہب کا معاملہ
تاج حیدر کے مطابق صوبے میں کم عمری کی شادی کے خلاف قانون موجود ہے۔ کسی بھی 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی۔
اُن کے بقول کچھ مذہبی اور مخصوص طبقہ اس قانون کو ناپسند کرتا ہے۔ اس علاقے میں مذہبی انتہا پسندی آج سے نہیں بہت پہلے سے موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیرِ داخلہ، بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کا کوئی بھی ایشو نہیں ہے۔
اُن کے بقول خصوصاً سندھ میں ہندو اقلیت باقی ملک کی نسبت سب سے زیادہ آباد ہے۔ ایک دو واقعات کو جواز بنا کر یہ کہنا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے یہ درست نہیں ہے۔
حارث نواز کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی ہندو، مسیحی لڑکی اپنا مذہب تبدیل کرتی ہے اور شادی کرتی ہے تو اس میں اس کی مرضی اور رضا مندی شامل ہوتی ہے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
سندھ میں خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی ویمن ایکشن فورم حیدر آباد کی ممبر امر سندھو کا کہنا ہے کہ سندھ کے مخصوص علاقوں میں کم عمر لڑکیوں کے جبری تبدیلیٔ مذہب کے معاملے پر رائے تقسیم ہے۔
امر سندھو کے بقول جو قانون جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن چونکہ وہ خود اپنی لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں کرتے ہیں چاہے وہ خاندان میں ہوں یا باہر تو وہ ایسی شادیوں کو پسند کی شادی ہی سمجھتے ہیں۔
جرائم میں اضافہ اور ڈاکو راج کی شکایات
تاج حیدر کے مطابق ایچ آر سی پی اگر یہ سمجھتا ہے کہ سندھ میں صرف ہندو یا اقلیت ہی سے تعلق رکھنے والے اغوا ہو رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے۔
اُن کے بقول یہ مسئلہ ہندو مسلمان کا نہیں ہے۔ اب جرائم کے طریقۂ کار بھی بدل چکے ہیں یہ ڈیجیٹل اور آن لائن طریقے سے ٹریپ کر کے کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ کسی ہندو کے ساتھ ہو تو زیادہ شور مچتا ہے۔ ہندوؤں کے تحفظ کی ذمہ داری ہم پر زیادہ ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ لیکن ایسے واقعات مسلمانوں کے ساتھ بھی پیش آ رہے ہیں۔
امر سندھو کا کہنا ہے کہ کچے کے ڈاکووں کا طاقتور ہونا اور پولیس کا ان کے سامنے بے بس نظر آنا ایک اہم پہلو ضرور ہے۔ لیکن ایچ آر سی پی کو یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ان با اثر ڈاکوؤں کی سپلائی لائن کہاں سے ہے۔
نگراں وزیرِ داخلہ حارث نواز کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے کچھ علاقوں میں لاقانونیت اور جرائم زیادہ ہیں۔
اُن کے بقول کچے کے ڈاکوؤں کا بااثر ہونا، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بالکل ہو رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک طویل عرصہ یہاں برسرِ اقتدار رہی ہے انہیں ان پر قابو پانا چاہیے تھا۔
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات
امر سندھو کے مطابق صرف مئی 2023 میں 67 خواتین قتل (غیر طبعی موت) کا شکار ہوئیں جن میں 26 قتل اور باقی کے حوالے سے خودکشی کہا گیا ہے۔
اُن کے بقول پچھلے 15 برسوں میں ان جرائم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہاں حکومت اور پولیس کے ساتھ ساتھ معاشرتی بے حسی بھی شامل ہے۔ جب بھی کوئی عورت قتل ہو تو آواز اٹھتی ہے لیکن پھر وہ آواز دب جاتی ہے۔
چیلنجز اور حل کیا ہیں؟
تاج حیدر کے مطابق ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آگے دیکھا جائے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا جائے۔ مسائل بہت سے ہیں اس کے لیے جب بھی ہماری حکومت برسر اقتدار آئی تو وہ بیورو کریسی اور پولیس پر دباو ڈال سکتی ہے کہ اسے ٹھیک کیا جائے۔
امر سندھو کے مطابق جب پہلے سیاسی جماعتیں کام کیا کرتی تھی تو سماج میں کچھ بہتری آجاتی تھی لیکن اب ان کی جگہ سرداروں، وڈیروں، پیروں، جاگیر داروں نے لے لی ہے۔
فورم