لاہور پولیس کے ایک اہل کار نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان فوج کے اہل کاروں نے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان جاری میچ کے دوران اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس انسپکٹر نے اہل کاروں کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست بھی دے دی ہے۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وردی میں ملبوس اہل کار قذافی اسٹیڈیم کے باہر دست و گریباں ہیں۔
فوجی اہل کاروں کی جانب سے پولیس اہل کار پر مبینہ تشدد کا معاملہ منگل کو پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک روزہ کرکٹ میچ کے دوران پیش آیا۔
لاہور کے تھانہ گلشن راوی میں تعینات ایس ایچ او دلاور حسین کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے گیٹ نمبر 14 پر فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ فوجی اہل کار ثاقب ایک کمسن بچے کو ساتھ لے آیا اور ایمرجنسی گیٹ سے اسے غیر قانونی طور پر بغیر ٹکٹ اندر بھیجنے کی کوشش کی۔
دلاور کے بقول فوجی اہل کار کو روکنے کی کوشش پر وہ کچھ دیر بعد تین سول افراد کے ساتھ آیا اور پھر اسٹیڈیم میں داخلے کی کوشش کی۔
پولیس نے جب دوبارہ جے سی ثاقب کو روکا تو اُس نے اُن کا موبائل فون چھین لیا اور اسٹیڈیم کے اندر چلا گیا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق تھوڑی دیر بعد جے سی او ثاقب کچھ فوجی جوانوں کے ساتھ وہاں آ گئے۔ بدتمیزی کرنے لگے اور اپنا اسلحہ تان لیا۔ شور سن کر پاس کھڑے ایس ایس پی آپریشن لاہور اور ایس پی آپریشن ماڈل ٹاؤن موقع پر آ گئے۔
رپورٹ کے مطابق اِسی اثنا میں ایک فوجی افسر میجر اسد بھی موقع پر پہنچ گئے اور فوجی اہل کاروں کو حکم دیا کہ ایس ایچ او دلاور حسین کو یونٹ پہنچا دو۔ جس پر ایس ایس پی آپریشن نے کہا کہ آپ افسر ہیں۔ اپنا کردار ادا کریں اور معاملے کو مل بیٹھ کر حل کر لیتے ہیں، لیکن میجر اسد نے باآواز بلند فوجی اہل کاروں کو کہا کہ دلاور حسین کو نہیں چھوڑنا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی آپریشن نے اُن کی ڈیوٹی تبدیل کر کے قذافی اسٹیڈیم کے اندر لگا دی۔ وہ ڈیوٹی کر رہے تھے کہ رات ساڑھے آٹھ بجے وائرلیس آپریٹر احتشام الحق نے دلاور حسین کو کہا کہ معاملہ حل کرنے کے لیے بریگیڈیئر چیمہ صاحب بلا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دلاور حسین اور آپریٹر تھورڑی دور ہی گئے تھے کہ 15، 20 مسلح فوجی اہل کار اُنہیں اغوا کر کے لے گئے۔ جہاں اُنہوں نے احتشام سے موبائل فون چھین لیا اور میجر اسد اُن پر تشدد کراتے رہے۔
اِس دوران آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے لیے ہنگامی راستہ اور عوام کی آمدورفت کا راستہ بند ہو گیا جس سے شدید سیکیورٹی خدشات پیدا ہو گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ دیر بعد ڈی آئی جی آپریشن، ایس ایس پی آپریشن اور بریگیڈیئر وسیم چیمہ دیگر کچھ افسران کے ساتھ وہاں پہنچے اور ایس ایچ او دلاور حسین کو میجر اسد کے چنگل سے چھڑا لیا۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور محمد عابد خان نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ قذافی اسٹیڈیم میں منگل کی شام پولیس اور آرمی اہل کاروں کے درمیان ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کی انکوائری کے لیے سینئر ترین افسران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور ہم آہنگی ہے۔ تمام ادارے مل کر شہریوں کو بھرپور سیکیورٹی فراہم کریں گے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) لاہور سے رابطہ کیا تو ایک افسر کے مطابق اسٹیڈیم کے داخلی راستہ پر کچھ تلخ کلامی ہوئی تھی جسے موقع پر ہی حل کر لیا گیا۔
پولیس رپورٹ سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ یہ سب سوشل میڈیا کی رپورٹ ہے۔ جہاں ایک چھوٹی سی لکڑ ی کو درخت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔