پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سے ملک میں نئی سیاسی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں ایک ایک کر کے اپوزیشن کے ساتھ مل رہی ہیں۔ اتحادیوں کا اس طرح دور ہونا مبصرین کی نظر میں بظاہر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کی جانب اشارہ ہے لیکن حکومت پرعزم ہے کہ یہ بازی وزیرِ اعظم عمران خان ہی جیتیں گے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھی حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک معاہدہ بھی طے پا چکا ہے جس کی تفصیلات بدھ کی شام تک منظر عام پر آئیں گی۔
متحدہ قومی موومنٹ اور حزب اختلاف نے تصدیق کی ہے کہ وہ مستقبل میں ساتھ چلنے کے لیے ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی اور پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بدھ کو معاہدے کی توثیق کریں گی جس کےبعد پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کی صورت میں ماہرین قومی اسمبلی ووٹوں کے تناسب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت ایوان میں اکثریت کھو بیٹھے گی۔ جس کے بعد منحرف ارکان کی حمایت کے بغیر ہی اپوزیشن کو ایوان میں اکثریت مل جائے گی۔
قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سات ارکان ہیں اور اپوزیشن میں شمولیت کے بعد قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی عددی تعداد 177 ہو جائے گی جو کہ عدم اعتماد کے لیے درکار 172 کا ضروری ہندسہ پورا کرتی ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کی کل تعداد 164 رہ جائے گی۔
تحریک انصاف کے رہنما اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے منگل کی شب میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں انہیں مزید ایک وزارت کی بھی پیش کش کی ہے اگر وہ زیادہ کی خواہش کریں گے تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
گورنر سندھ نے امید کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدہ ہو سکتا ہے اور ان کے لیے دل اور دروازے کھلے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔
حکومت کے اتحادی تیزی سے اپوزیشن کی جانب مائل ہو رہے ہیں اسی دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے منگل کواپنے پارٹی ارکان کے نام ایک خط لکھا اور انہیں ہدایت جاری کی کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز ایوان سے غیر حاضر رہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی ہو گی۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کہتے ہیں کہ متحدہ اپوزیشن اور حکومت سے علیحدہ ہونے والی جماعتیں ایسے قومی میثاق کو تشکیل دے رہی ہیں جو دہائیوں سے چلی آرہی محرومیوں کے خاتمے کی بنیاد ہو گا۔
خواجہ آصف نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حکومت سے الگ ہونے والی جماعتوں اور اپوزیشن کی قربت سے آئین کا تقدس بحال ہو گا، معاشرے کے تمام طبقات کے حقوق کا احترام اور صوبائی خودمختاری کی آئینی ضمانت کو یقینی بنایا جائے گا۔
مسلم لیگ (ق) کہاں کھڑی ہے؟
حکومتی اتحاد میں اب مسلم لیگ (ق) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس رہ گئی ہیں جن کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد بالترتیب پانچ اور تین ہے۔
مسلم لیگ (ق) نے عدم اعتماد کی تحریک میں حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن اس جماعت سے وابستہ رکنِ قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کرتے ہیں اور وہ ان کے خلاف ووٹ دیں گے۔
طارق بشیر چیمہ کا وزیرِ اعظم کے خلاف ووٹ دینے سے اپوزیشن کو فائدہ ہو گا۔
مریم نواز کو پسند نہیں تھا ہم ان کے ساتھ ہوتے: چوہدری پرویز الہیٰ
وفاقی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ کو پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کر چکی ہے ۔ پرویز الہیٰ اس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں اور ان کی جماعت کی صوبائی اسمبلی میں کل ارکان کی تعداد دس ہے۔
وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حکومت کا ساتھ دینے کے اعلان سے قبل مسلم لیگ (ق) کی قیادت اپوزیشن سے بھی رابطے میں تھی۔ لیکن حکوت کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد اب اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت باقی نہیں رہتی تو پنجاب میں بھی اس کا اپنی حکومت برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔
اپوزیشن اتحاد میں شامل نہ ہونے سے متعلق فیصلے پر پرویز الہیٰ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ مریم نواز کا گروپ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ دس نشستوں والی جماعت کو سب کچھ کیوں دے دیا جائے۔
پرویز الہیٰ نے منگل کو مقامی ٹی وی چینل' جیو نیوز' کے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب شہباز شریف برسوں بعد لاہور میں ان کے گھر تشریف لائے تو ان سے ہونے والی گفتگو کے بعد شہباز شریف نے انہیں کھانے کی دعوت پر مدعو کیا لیکن وہ نہیں گئے۔
ان کے بقول انہیں کچھ چیزوں کا پتا چلا کہ شہباز شریف کے ساتھ جن لوگوں کو آن بورڈ ہونا چاہیے تھا مستقبل میں ساتھ چلنے سے متعلق آن بورڈ نہیں تھے اور وہ لوگ اہمیت رکھتے ہیں۔
ان کے بقول مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے پر ان کے ساتھ ماضی میں تین مرتبہ ہاتھ ہو چکا ہے اس لیے وہ ان کے ساتھ چلنے میں محتاط رہتے ہیں۔