بھارت کی پولیس نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے اور انسداد بغاوت آپریشنز کے لیے مقامی افراد کو تربیت دینا شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے تیار کیے جانے والے یہ مقامی لوگ پولیس میں نچلا عہدہ رکھنے والے 'اسپیشل پولیس آفیسرز' کہلائیں گے۔
'اے پی' کے مطابق ان افراد کو بنیادی طور پر انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے اور انسداد بغاوت آپریشنز کے لیے بھرتی کیا جارہا ہے۔
حالیہ برسوں میں فورس کی جانب سے سرحدی علاقوں میں بھی مدد فراہم کی گئی ہے، جس کی وجہ مقامی لوگوں کی علاقے سے واقفیت اور ہنگامی صورتِ حال میں پولیس اور بارڈر گارڈز کی مدد کی صلاحیت ہے۔
ریتا دیوی انہیں افسران میں شامل ہونے والی ایک خاتون ہیں جنہوں نے لگ بھگ تین ماہ صبح سے شام تک تربیت حاصل کی ہے۔
دیوی ان 73 دیگر مرد و خواتین میں سے ایک ہیں جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں پہاڑیوں پر مشتمل درجنوں گاؤں میں قانون نافذ کرنے والے افسران کی مدد کے لیے 'اسپیشل پولیس افسر' بننے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان کے دن کا آغاز جسمانی تربیت سے ہوتا ہے جس کے بعد وہ بارڈر مینجمنٹ (سرحدی انتظام) اور بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحد پر تصادم کے دوران پولیس اور بارڈر گارڈز کے ساتھ تعاون سے متعلق کلاسز لیتی ہیں۔
بعد ازاں، شام کے وقت میں وہ ہتھیاروں کے استعمال اور امن و امان سے متعلق تربیت حاصل کرتی ہیں۔
'اے پی' کے مطابق ریتا دیوی کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ پولیس میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ ان کے بقول، 'یہ پوزیشن انہیں لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت دے گی۔'
کٹھوعہ کے پولیس چیف رمیش کوٹ وال کا کہنا ہے کہ ''ہم نے یہ بیچ خاص طور پر بارڈر مینجمنٹ کے لیے بھرتی کیا ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ان لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں، تاکہ انہیں سرحد پار شیلنگ جیسے معاملات سے نمٹنے میں مزید مہارت دی جائے۔'
رپورٹ کے مطابق بھرتی ہونے والے افراد اپنی تربیت کے آخری مراحل میں ہیں جس کے بعد انہیں کٹھوعہ کے دور دراز علاقوں میں پولیس بارڈر پوسٹس پر بھیجا جائے گا۔
واضح رہے کہ کشمیر کا ایک حصہ بھارت اور ایک حصہ پاکستان کے زیر کنٹرول ہے۔ کشمیر کے ان دونوں حصوں کو الگ کرنے والی لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان دونوں کی افواج موجود ہیں۔
اس سرحدی حصے پر خاردار تاریں، نگرانی کے لیے ٹاورز اور بنکرز موجود ہیں جب کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پار فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔
البتہ، فروری 2021 سے دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر خاموشی ہے۔ فروری میں جوہری ہتھیار رکھنے والے پاکستان اور بھارت نے 2003 میں ہوئے جنگ بندی معاہدے کی تجدید کا اعادہ کیا تھا۔
اس سے قبل دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اکثر آرٹلری، راکٹس اور دیگر ہتھیاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا تھا جس میں سیکڑوں افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔