پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور وہ اب اسلام آباد کی جانب مارچ نہیں کریں گے۔
اتوار کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ اُن کی ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی سے ون آن ون ملاقات ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بدھ تک کالعدم تنظیم کے خلاف مقدمات واپس لے لیے جائیں گے جب کہ تنظیم پیر یا منگل تک اپنا دھرنا جاری رکھے گی لیکن اب اس کے کارکن اسلام آباد کا رُخ نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ ہفتے کو تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکن جی ٹی روڈ پر لگائی گئی رکاٹوں کو ہٹاتے ہوئے مریدکے پہنچ گئے تھے جہاں اب بھی اُن کے کارکن موجود ہیں۔
یہ مارچ جمعے کو اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا تھا تاہم لاہور کے علاقے چوبرجی اور بعدازاں مریدکے کے قریب مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کے دوران جھڑپوں میں ہلاکتوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔
پریس کانفرنس کے دوران شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو راستے کھولنے کی ہدایت کر دی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کا وفد پیر کو مزید مذاکرات کے لیے وزارتِ داخلہ آئے گا۔
فرانسیسی سفیر کی بے دخلی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر پاکستان میں نہیں ہے بلکہ اُن کا ناظم الامور اُن کی جگہ یہاں تعینات ہے۔ تاہم یہ معاملہ پارلیمنٹ میں پھر زیرِ بحث لایا جائے گا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق تحریک لبیک کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ حکومت نے ایف آئی آرز کے خاتمے اور فورتھ شیڈول سے نام نکالنے کے لیے منگل کی شام تک کا وقت مانگا ہے۔ اگر منگل کی شامل تک معاملات حل نہ ہوئے تو بدھ سے اسلام آباد کی طرف دوبارہ مارچ شروع ہو جائے گا۔
مذاکرات کے حوالے سے تحریکِ لبیک کی مرکزی شوریٰ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں شوریٰ کے رکن مفتی سرور سیفی نے مریدکے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گزشتہ رات نو بجے سے تین بجے تک مذاکرات ہوتے رہے جن میں حکومت نے ہم سے تمام مقدمات ختم کرنے اور فورتھ شیڈول سے نام نکالنے کے لیے منگل کی شام تک کا وقت مانگا ہے۔
مفتی سرور کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک ہمارے تحفظات دور نہیں کیے جاتے اور چھ ماہ سے قید سعد رضوی رہا نہیں ہو جاتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر منگل کی شام تک معاملہ حل نہ ہوا تو بدھ کی صبح ہم دوبارہ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیں گے۔
وزیرِ داخلہ اور وزیرِ مذہبی امور کی لاہور آمد
وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید اور وزیر مذہبی امور نور الحق قادری ٹی ایل پی سے مذاکرات کے لیے لاہور پہنچے تھے۔
شیخ رشید وزیرِ اعظم کی ہدایت پر دبئی سے لاہور پہنچے۔ وہ دبئی میں اتوار کو ہونے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق شیخ رشید نے لاہور پہنچ کر سیف سٹی اتھارٹیز کا دورہ کیا اور مارچ کی سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی کی۔
اطلاعات کے مطابق شیخ رشید احمد نے کوٹ لکھپت جیل میں کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی سے ملاقات کی ہے۔
دیگر صوبوں سے پولیس اسلام آباد طلب
وزیرِ داخلہ شیخ رشید کے لاہور پہنچنے پر انہوں نے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے ہر صورت روکا جائے گا۔
اجلاس میں فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پنجاب سے اضافی پولیس کے دستوں کو اسلام آباد طلب کی گیا ہے۔
وفاقی وزير برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے ایک بیان میں کہاکہ حکومت مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
جی ٹی روڈ پر گڑھا کھود دیا گیا
حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی کے کارکنوں کو گوجرانوالہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے جی ٹی روڈ پر شہر کے قریب ایک بڑا اور گہرا گڑھا کھود دیا ہے۔
گڑھے کھودنے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا جس کے بعد جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والے مسافروں کی گاڑیوں اور سامان کی ترسیل کے ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔
حکومت نے گوجرانوالہ جانے والے دیگر راستے بھی کنٹینر اور رکاوٹیں لگا کر بند کر دیے ہیں۔
لاہور میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس
ٹی ایل پی کا مارچ لاہور سے ہفتے کی صبح گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہوا تو لاہور کے مختلف علاقوں میں معطل انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بحال ہونا شروع ہو گئی تھی۔
مختلف سڑکوں پر کھڑی رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔
میٹرو بس سروس اور اورنج لائن میٹرو ٹرین چوتھے روز بھی بند
ٹی ایل پی کے احتجاج اور دھرنے کے باعث لاہور میں میٹرو بس سروس اور اورنج لائن میٹرو ٹرین چوتھے روز بھی بند رہی۔
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے مینیجر آپریشنز عذیر شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ایل پی کے مارچ کے باعث اسلام آباد میں میٹرو بس سروس محدود روٹ پر چل رہی ہے جب کہ راولپنڈی میں مکمل طور پر بند ہے۔
اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے جڑواں شہروں کی مختلف سڑکوں کو کنٹینروں اور مختلف رکاوٹوں کی مدد سے بند کر دیا ہے جس سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
تین پولیس اہلکار ہلاک
واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں تین اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ جھڑپوں کے باعث ٹی ایل پی کے کارکنوں کے بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ترجمان لاہور پولیس انسپکٹر رانا عارف کے مطابق ٹی ایل پی کے ساتھ اب تک کی جھڑپوں میں تین افراد ہلاک جب کہ 15 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ جھڑپوں میں تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بیان کے مطابق پولیس اہلکار فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی عمل داری کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
وزیرِ اعلیٰ نے متنبہ کیا کہ قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی-
قبل ازیں لاہور کے علاقے ایم اے او کالج کے قریب پولیس اور ٹی ایل پی کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں ایک ایس ایچ او سمیت 10 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
پولیس کا دعوٰی ہے کہ ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کے پاس ڈنڈے اور پتھر ہیں جن کا وہ آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔
ترجمان لاہور پولیس انسپکٹر رانا عارف کے مطابق پہلے ٹی ایل پی کے کارکنوں کی جانب سے ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ٹی ایل پی نے پولیس اور انتظامیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پرامن رہیں گے البتہ بعد میں انہوں نے خود پُر تشدد ہنگامہ آرائی شروع کی۔
ٹی ایل پی نے جمعے کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کیا تھا جو ہفتے کی صبح لاہور کے علاقے راوی پل پر پہنچا جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہیں۔
بعد ازاں مارچ کے شرکا کالا شاہ کاکو تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
موٹرویز پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نیشنل ہائی وے اور موٹر وے بدستور کھلی ہوئی ہیں۔
ٹی ایل پی کا قافلہ نمازِ جمعہ میں لاہور کے علاقے یتیم خانہ چوک سے روانہ ہوا تھا جو راستے کی رکاوٹیں ہٹاتا ہوا۔ رات گئے داتا دربار پہنچا تھا۔
ٹی ایل پی کے کارکنان نے داتا دربار کے قریب کچھ دیر قیام اور نمازِ فجر کے بعد دوبارہ اسلام آباد کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔
تحریک لبیک پاکستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر صدام بخاری کہتے ہیں کہ پولیس نے اسلام آباد جانے والی اُن کی پُر امن ریلی پر پہلے حملہ کیا۔
صدام بخاری کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک تنظیم کے درجنوں کارکن زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے 10 افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔
ٹی ایل پی کی مرکزی شورٰی کے رکن سرور حسین شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرے۔ اُنہیں اُن کے آئینی اور قانونی حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔
اُنہوں نے بیان میں مزید کہا کہ حکومت ایک طرف اُن سے مذاکرات کرتی ہے تو دوسری جانب اُن کے کارکنوں پر تشدد شروع کر دیا جاتا ہے۔
سرور حسین شاہ کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کو رہا نہیں کرئے گی مزید مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اب سعد حسین رضوی ہی آ کر حکومت سے مذاکرات کریں گے۔
خیال رہے تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ناکام ہو گیا تھا۔
ٹی ایل پی نے سعد رضوی کی رہائی تک حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں پنجاب کے وزرا راجہ بشارت اور چوہدری ظہیر الدین شامل ہیں ـ
کالعدم ٹی ایل پی نے 19 اکتوبر 2021 کو پیغمبرِ اسلام کے یومِ پیدائش پر 12 ربیع الاول کو ایک ریلی نکالی تھی جسے بعد ازاں دھرنے میں بدل دیا تھا۔
ٹی ایل پی کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر ٹی ایل پی کے امیر سعد حسین رضوی کو رہا کرے اور فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے باعث فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالے۔