خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے دو قبائلی اضلاع میں روایتی سیکورٹی ادارے خاصہ دار فورسز اور انضمام کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں کے بائیکاٹ اور احتجاج کے باعث انسداد پولیو مہم متاثر ہو رہی ہے۔
پولیو کے جراثیم پر قابو پانے کے لئے خیبر پختونخوا کے 25 اضلاع میں 55 لاکھ سے زائد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی تین روزہ مہم پیر سے شروع ہو گئی۔
تاہم پشاور سے ملحقہ ضلع خیبر اور مہمند میں خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں اور قبائلی رہنماؤں کے احتجاج کے باعث مہم شدید متاثر ہو رہی ہے جب کہ دیگر اضلاع میں مہم پُر امن طریقے سے جاری ہے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے خاصہ دار فورسز کے اہلکار اور افسران پچھلے 15 دنوں سے تاریخی مقام 'باب خیبر' پر احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔
پیر کی صبح ڈپٹی کمشنر نے احتجاجی دھرنے میں شامل خاصہ دار فورسز کے عہدیداروں اور اہلکاروں کو منانے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بار آور ثابت نہ ہو سکی۔
خاصہ دار فورسز کے تنظیمی عہدیدار مظہر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی کہ انہوں نے انسداد پولیو مہم میں فرائض سر انجام دینے کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے، تب تک بائیکاٹ جاری رہے گا۔
خیبر کے آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ 'کوکی خیل' کے مشران نے پولیو مہم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 50 لاکھ روپے جرمانہ کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔
وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا کے انضمام کی مخالفت کرنے والے قبائلی رہنماؤں میں سرگرم ملک صلاح الدین کوکی خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ احتجاج کرنے والے خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انسداد پولیو مہم کے بائیکاٹ پر ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے انسداد پولیو مہم کے انچارج بابر بن عطا کا کہنا ہے کہ بدقسمتی ہے کہ انسداد پولیو کی آڑ میں اب لوگ اور سرکاری اہلکار اپنے اپنے مطالبات کے لئے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں حالانکہ پولیو کے قطرے تو وہ دوا ہے جس سے بچوں کو معذور ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
خیبر اور مہمند سمیت تمام تر سابق قبائلی اضلاع میں سیکورٹی کے فرائض سر انجام دینے والے خاصہ دار فورسز کے اہلکار انضمام کے بعد پولیس فورس کا حصہ بننے کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں بشمول گورنر اور وزیر اعلیٰ نے کئی بار احتجاج کرنے والوں کے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کی ہے مگر ابھی تک کسی قسم کا سرکاری اعلامیہ جاری نہیں ہوا ہے۔ خاصہ دار فورسز کو پولیس میں ضم کرنے کے بارے میں حکمراں جماعت اور سول انتظامی افسران میں کئی اختلافات ہیں۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق انسداد پولیو کی سہ روز مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ 56 لاکھ بچوں کو 27 ہزار 175 اہلکاروں کے ذریعے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوائے جائیں گے۔
اس سال ملک بھر میں اب تک پولیو سے متاثرہ چھ مریضوں کی نشاندہی ہو چکی ہے جن میں سے چار کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بشمول ضلع خیبر سے ہے۔
خیبر، مہمند اور دیگر قبائلی اضلاع کے خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں اور انضمام کی مخالفت کرنے والے قبائلی رہنماؤں کے احتجاج کے علاوہ انسداد پولیو مہم میں رکاوٹ وہ والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں اور بچیوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلواتے۔
حکام کے مطابق صوبے بھر میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد تقریباً 36 ہزار ہے۔