پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے جہاں جوڑ توڑ جاری ہے وہیں 17 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں اور اُن کے اُمیدواروں نے سیاسی مہم کو مزید تیز کر دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سیاسی مہم پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز جب کہ صوبے میں سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور اتحادی جماعتوں کی انتخابی مہم سابق وزیراعظم عمران خان چلا رہے ہیں۔
اِس سلسلے میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پہلے مرحلے میں لاہور میں ہونے والے چار ضمنی حلقوں کا گزشتہ ہفتے دورہ کر چکے ہیں۔ جس کے جواب میں مریم نواز اِن دِنوں اُنہی چار حلقوں میں انتخابی مہم کے تحت جلسوں سے خطاب کر رہی ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران دونوں جماعتوں کے مرکزی قائدین اور اُن کے امیدوار ملک میں ہونے والی حالیہ مہنگائی کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
صوبے کی دونوں بڑی جماعتوں کو ضمنی انتخابات کے ساتھ ساتھ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے حصول کے لیے بھی جوڑ توڑ اور کوششیں کرنا پڑ رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہونا ہے۔ اِس کے لیے ایک مرتبہ پھر پنجاب کی موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ حمزہ شہبازشریف نے اپنا عہدہ برقرار رکھنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
SEE ALSO: پنجاب کے 20 حلقوں پر ضمنی انتخابات: وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے لیے بڑا امتحاندوسری جانب وزارتِ اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار اسپیکر چوہدری پرویزالٰہی نے بھی عدالتی کارروائی کو اپنی جیت سمجھتے ہوئے اراکین سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
واضح رہے عدالت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے دوبارہ انتخاب میں پریذائیڈنگ افسر ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری ہی ہوں گے۔ اِنہوں نے ہی بطور پریذائیڈنگ افسر 16 اپریل کو وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب کرایا تھا۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات اور وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے بعد صوبے میں جاری سیاسی اور آئینی بحران کے خاتمے میں مدد ملے گی اور جو بھی نیا وزیراعلٰی بنےگا اُسے عوامی سطح پر بہت سے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔
'ضمنی انتخابات کے لیے ووٹنگ ٹرن آؤٹ اہمیت رکھتا ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں پی ٹی آئی قائدین ضمنی انتخابات میں متوقع دھاندلی کی بات کر رہےہیں، لیکن اُنہیں ثابت کرنا ہو گا کہ دھاندلی کی شکل کیا ہے؟ کیسے ہونی ہے؟ اور کہاں ہونی ہے؟ محض الزامات سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ایک حلقے کے بارے میں پی ٹی آئی نے الزام لگایا ہے کہ وہاں 61 فی صد ووٹ درست نہیں، لیکن اِس کو ثابت کرنے کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضمنی انتخابات کے لیے ووٹنگ ٹرن آؤٹ اہمیت رکھتا ہے۔ مہنگائی نے ہر سطح پر لوگوں کو متاثر کیا ہے جس کا ووٹنگ پر براہِ راست اثر پڑ سکتا ہے اور خاص طور پر ایسے سوئنگ ووٹرز بھی ہیں جو آخری وقت میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
افتخار احمد کے بقول اگر پی ٹی آئی کی جانب سے ضمنی انتخابات میں حکومتی انتظامی ڈھانچے کے استعمال کے الزامات عائد کیے تو انہیں یہ ثابت بھی کرنا ہوں گے۔اور بظاہر اس طرح لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات کے بعد شور مچانا چاہتی ہے۔ اِس سے اُن کو ایک جواز مل جائے گا اور وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمدسمجھتے ہیں کہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال میں پہلی مرتبہ ایسی صورتِ حال بنی ہے کہ بیک وقت 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوں گے۔ اِسی طرح وزیراعلٰی کے انتخاب سے لے کر اَب تک سیاسی بحران تھم نہیں سکا ہے اور ہر مرتبہ عدالتوں میں معاملہ لے جایا گیا ہے۔
SEE ALSO: سپریم کورٹ کا حکم، حمزہ شہباز اور پرویز الہی 22 جولائی کو وزیراعلی کے انتخاب پر متفقوائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جہاں سیاست دانوں پر سوال اٹھ رہے ہیں اُسی طرح عدالتوں پر بھی سوال اٹھ رہےہیں کہ اُنہوں نے پنچائیت کا کام شروع کر دیا ہے۔ جس سے یوں لگتا ہے کہ یہ تمام تر ناکامی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے صدر، گورنر اور اسپیکر کو نہ ماننے کے حوالے سے بیانات سامنے آئے ہیں۔ اداروں کو متنازع بنانا یا اُن کا مذاق اڑانا درست روایت نہیں اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس سے پورا نظام ختم ہو جائے گا۔
تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) کو بہت سے مسائل درپیش ہے۔ جن میں سرفہرست یہ ہے کہ اُنہوں نے ضمنی انتخابات کے لیے جن امیدواروں کو ٹکٹیں دی ہیں وہ ماضی میں پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ جس کے باعث اُنہیں یہ چیلنج ہے کہ اُن کے اپنے جو اُمیدوار تھے وہ اپنے حلقوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔جب ایسے نمائندوں کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہیں ملی تو ایسے حلقوں میں ووٹر کشمکش اور پریشانی کا شکار ہے۔ اِسی طرح ن لیگ کا موجودہ امیدوار اور سابقہ امیدوار بھی قدرے مایوس ہے جس سے جماعت کے اندر اندرونی اختلاف بڑھیں گے۔
ان کے بقول پی ٹی آئی کو بھی اسی طرح کےچیلنجز کا سامنا ہے۔ کیوں کہ اس بار پی ٹی آئی کو نئے امیدواروں کو ٹکٹ دینا پڑ رہے ہیں جو اپنے حلقوں میں اس طرح سے متحرک نہیں۔ ایسے اُمیدوارں کو اپنی سیاسی چال چلنے کے لیے کم وقت ملا ہے۔