چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کریں گے۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل ہوں گے۔
سپریم کورٹ کا لارجر بینچ جمعے کو درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل ہیں۔
ملیکہ بخاری نے بھی تحریکِ انصاف چھوڑ دی
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ملیکہ بخاری نے بھی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق جمعرات کو نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملیکہ بخاری نے اعتراف کیا کہ نو مئی کو ریڈ لائن کراس کی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے، میں اپنے وکالت کے پروفیشن اور خاندان کو وقت دینا چاہتی ہوں۔"
نو مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر پارٹی کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے: عمران خان
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر تحریکِ انصاف کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات جس کی پوری پارٹی مذمت کر چکی ہے کو بنیاد بنا کر 'جبری علیحدگیوں' کے ذریعے جماعت کو توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال 25 مئی کو فسطائیت کی گہرائیوں کی جانب ہمارے سفر کا آغاز ہوا، ہم سمجھ رہے تھے کہ اس میں کمی آئے گی، لیکن ہم پر ریاستی جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 25 مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، تاہم اس دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی کارکن اور پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بعض کا خیال تھا کہ یہ ظلم یہیں تک محدود رہے گا مگر یہ تو صرف آغاز ثابت ہوا۔ آج پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی سطح کی واحد سیاسی جماعت کو بلاخوفِ احتساب پوری شدت سے ریاستی جبر کے نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔
اُن کے بقول سینئر قائدین سمیت دس ہزار سے زائد کارکنان اور سپورٹرز زندانوں کی نذر کر دیے گئے ہیں جبکہ بعض کو زیرِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی؛ کمانڈنگ افسر نے 16 'شر پسندوں' کی حراست مانگ لی
کور کمانڈر ہاؤس میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی کے لیے فوج نے 16 ملزمان کی حراست مانگ لی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے کمانڈنگ افسر نے 16 ملزمان کی حراست مانگ لی۔انسدادِ دہشت گردی عدالت نے کمانڈنگ افسر کی استدعا کو منظور کرلیا۔
عدالت نے سابق رُکن پنجاب اسمبلی میاں اکرم عثمان سمیت 16 ملزمان کو کمانڈ افسر کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
کمانڈنگ آفیسر کے مطابق ملزمان آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن تین، سات اور نو کے تحت قصوروار پائے گئے ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے مطابق ان ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے۔پراسکیوشن نے کمانڈر کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیمپ جیل کے حکام 16 ملزمان کو مزید کارروائی کے لیے کمانڈر افسر کے حوالے کر دیں۔
عمران خان نے نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رُجوع کر لیا
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے نو مئی کو پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق عمران خان کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
عمران خان نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دو صوبوں میں 'غیر اعلانیہ مارشل لا' کو روکا جائے۔
عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست ایسے موقع پر دائر کی گئی ہے جب تحریکِ انصاف کے کئی رہنما پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والے کئی رہنماؤں نے نہ صرف نو مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے بلکہ عمران خان سے دوری اختیار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی سے علیحدگی کرنے والے نمایاں رہنماؤں میں شیریں مزاری، فواد چوہدری، آفتاب صدیقی، فیاض الحسن چوہان، عامر کیانی، محمود مولوی، چوہدری وجاہت اور دیگر شامل ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات سمیت کئی املاک کو نقصان پہچایا تھا۔
پی ٹی آئی رہنما پرویز الہیٰ کی ضمانت مسترد
لاہور کی اینٹی کرپشن کورٹ نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور تحریکِ انصاف کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی ہے۔
پاکستان کی مختلف عدالتوں میں تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے خلاف جمعرات کو بھی مقدمات کی سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق اینٹی کرپشن کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کے خلاف ترقیاتی منصوبوں میں بے ضابطگیوں کے مقدمے میں ضمانت خارج کر دی ہے۔
عدالت نے پرویزالہی کی عبوری ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی اور ان کی حاضری معافی کی درخواست بھی خارج کر دی۔
عبوری ضمانت کی معیاد ختم ہونے پر پرویز الہیٰ کو آج اینٹی کرپشن عدالت میں پیش ہونا تھا۔ جج علی رضا نے کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر پرویز الہیٰ کے وکیل امجد پرویز نے اپنے موکل کی حاضری معافی کی درخواست دائر کی۔
دورانِ سماعت پراسیکیوشن نے مؤقف اختیار کیا کہ پرویز الہیٰ کا میڈیکل جعلی ہے، انہیں آج عدالت کے روبرو پیش ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پرویز الہیٰ کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔
SEE ALSO: وزیرِ اعلٰی پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیےسینیٹر اعجاز چوہدری کی رہائی اور پھر گرفتاری
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سینیٹر اعجاز چوہدری کی نقصِ امن کی دفعہ تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔
بعدازاں پولیس نے ایک اور مقدمے میں اُنہیں گرفتار کر لیا۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما ملیکہ بخاری اور علی محمد خان کی نظر بندی اور دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کی درخواستیں بھی نمٹا دی ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کی تو درخواست گزار وں کی جانب سے تیمور ملک ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
SEE ALSO: اسد عمر پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اور کور کمیٹی سے مستعفی، پارٹی نہیں چھوڑیدرخواست گزاروں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملیکہ بخاری اور علی محمد خان کو ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے احکامات پر تھری ایم پی او کے تحت گرفتارکیا گیا ہے۔
فاضل جج نےانہیں بتایا کہ راولپنڈی کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ، آپ متعلقہ فورم لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے رجوع کریں ۔
شیریں مزاری کی دوبارہ گرفتاری پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرنے والی رہنما شیریں مزاری کی دوبارہ گرفتاری کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی)اسلام آباد پولیس کو 31 مئی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے آئی جی اسلام آباد کی عدم موجودگی پر حیرت کا اظہارکرتے ہوئےاستفسار کیا کہ آئی جی پولیس نہیں آئے ؟ یہ توہین عدالت کا کیس ہے ،انہیں یہاں ہونا چاہیےتھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی صاحب بینچ ون کے سامنے ہیں ، کچھ دیر تک آجائیں گے جس پر فاضل جج نے کہا کہ بادی النظر میں آئی جی نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے آرڈر کو اس عدالت کے حکم پر ترجیح دی۔
جسٹس میاں گل اورنگزیب نے اٹارنی جنرل سےکہاکہ پہلے دن بتا دیتے ریاست کی پوری مشینری کیوں ایکٹو ہے اور شیریں مزاری کی گرفتاری کا ایم پی او کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ سب سیاست ہو رہی ہے اس کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں، تو ہم کوئی اور کیس سن لیتے۔