پوپ فرانسس کی کینیڈا کے مقامی اسکولوں میں زیادتی کے واقعات پرمعافی

پوپ فرانسس کینیڈا کے آبائی باشندوں کے اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں۔ 25 جولائی 2022

پوپ فرانسس نے کینیڈا بھر کے کیھتولک اسکولوں میں ملک کی آبائی نسلوں سے کی جانے والی بدسلوکی پر چرچ کے کردار پر معافی مانگنے کے ایک حصے کے طور پر صوبہ البرٹا میں ایک مقامی چرچ کا دورہ کیا۔

اپنے خطاب میں پوپ نے مفاہمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ سوچ کر تکلیف ہوئی کہ "کیتھولک ان پالیسیوں کا حصہ رہے ہیں" جس کی وجہ سے "کمیونٹیوں اور افراد سے ان کی ثقافتی اور روحانی شناخت چھین لی گئی، ان کی جڑیں منقطع ہوئیں اور متعصبانہ اور امتیازی رویوں کو پروان چڑھایا گیا۔"

پوپ فرانسس نے یہ بات البرٹا کے شہر ایڈمنٹن کے مرکز میں واقع سیکرڈ ہارٹ چرچ آف دی فرسٹ پیپلز میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران کہی۔

پوپ کینیڈا کے چھ روزہ دورے پر ہیں۔ و ہ اتوار کوایڈمنٹن شہر پہنچےتھے ۔

کینڈا میں کیتھولک اسکولوں میں زندہ بچ جانے والوں کے رشتہ دار پیر کی شام چرچ کے باہر کھڑے تھے تاکہ پوپ فرانسس کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔

ان میں سے بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ پہلے دن میں پوپ کی معافی مفاہمت کی طرف صرف پہلا قدم تھا۔

پوپ فرانسس نے اس سے پہلے پیر کے روز کینیڈا بھر کے کیھتولک اسکولوں میں کینیڈا کی آبائی نسلوں سے کی جانے والی بدسلوکی اور جبری طور پر مقامی ثقافت کے خاتمے سے متعلق چرچ کے کردار پر معافی مانگی تھی ۔

پوپ کینیڈا کے اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں ہیں ۔85 سالہ پوپ نے اس سال کے شروع میں ویٹیکن میں ان سے ملنے انے والے کینڈا کے ابائی نسل کے وفود سے اس طرح کے دورے کا وعدہ کیا تھا۔ جہاں انہوں نے ابتدائی معافی مانگی تھی۔

ایک سابقہ اسکول کے قریب بات کرتے ہوئے، فرانسس نے طویل عرصے سے جاری "نوآبادیاتی ذہنیت" کی عیسائی حمایت کے لیے معذرت کی۔ انہوں نے نام نہاد ر چرچ اسکولوں کے بارے میں تفصیلی تحقیقات اور زندہ بچ جانے والوں اورائیندہ نسل کے لئے مزید مدد کا مطالبہ بھی کیا۔

پوپ فرانسس کو صبح کے وقت سابق ایرمینسکن انڈین ریسیڈنشیل اسکول کے مقام پرپہنچنے، جواب ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ یہاں وہ اسکول کے بچ جانے والوں، ان کے رشتہ داروں اور دیگر حامیوں سے بات کرنے سے پہلے سابق اسکول اورقریبی قبرستان کے مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکے۔

علاقے میں ہلکی بارش کے باوجود مقامی لوگ چھتریوں یا خیموں کے نیچے کھڑے پوپ کا انتظار کر رہے تھے۔

کینیڈا کی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 19ویں صدی سے لے کر1970 کی دہائی تک سرکاری امداد سے چلنے والے عیسائی اسکولوں میں جسمانی اورجنسی زیادتیاں ہورہی تھیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انیس سو اکیاسی اور چھیانوے کے درمیان ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مقامی بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کر کے رہائشی سکولوں میں لایا گیا۔ بہت سے بچوں کو بھوکا مارا گیا، ان کی مادری زبانیں بولنے کی وجہ سے مارا پیٹا گیا، اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جسے کینیڈا کے سچائی اور مصالحتی کمیشن نے "ثقافتی نسل کشی" قرار دیا۔

کیتھولک مذہبی احکامات کینیڈا کے 139 رہائشی اسکولوں میں سے 66 میں عمل میں لائے گئے ، جہاں ہزاروں بچے بیماری، آگ اور دیگر وجوہات سے مر گئے۔

زیادہ تر اسکول پادریوں اور راہباؤں کے رومن کیتھولک مذہبی احکامات کے ذریعے حکومت کے لیے چلائے جاتے تھے۔

گزشتہ سال برٹش کولمبیا کے ایک سابق رہائشی اسکول میں 215 بچوں کی باقیات دریافت ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سے، ملک بھر کے دیگر سابق رہائشی اسکولوں میں مزید سینکڑوں بچوں کی مشتبہ باقیات کا پتہ چلا ہے۔

پوپ فرانسس کینیڈا کے دورے پر

بہت سے زندہ بچ جانے والے اور مقامی رہنما کہتے ہیں کہ وہ معافی مانگنے سے زیادہ اقدامات چاہتے ہیں۔ وہ مالی معاوضہ، مشنریوں کے ذریعے ویٹیکن کو بھیجے گئے نوادرات کی واپسی، فرانس میں رہنے والے ایک مبینہ بدسلوکی کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں مدد اور اسکولوں کو چلانے والے مذہبی احکامات کے پاس موجود ریکارڈ کی ریلیز بھی چاہتے ہیں۔

حکومت، گرجا گھروں اور تقریباً نوے ہزار زندہ بچ جانے والے طلباء پرمشتمل گروپ کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمہ کے تصفیے کے ایک حصے کے طور پر، کینیڈا نےمعاوضہ ادا کیا ہے جس کی اربوں ڈالر کی رقم مقامی کمیونٹیز کو منتقل کی گئی۔ کینیڈا کے کیتھولک چرچ کا کہنا ہے کہ اس کے ڈائیسیسز اورمذہبی فرقوں نے 5کروڑ ڈالر سے زیادہ کی نقدی اورامداد فراہم کی ہے، اورامید ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں مزید 3 کروڑڈالرکا اضافہ کیا جائے گا۔

وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے بھی پچھلے سال رہائشی اسکول کے نظام کومنظم کرنے میں "ناقابل یقین حد تک نقصان دہ حکومتی پالیسی" کے لیے معافی مانگی تھی ۔

(خبر کا مواد اے پی اور رائٹرز سے لیا گیا)