پاکستان میں حکومت کی طرف سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کی خریداری سے متعلق صدارتی آرڈیننس تو جاری کر دیے گئے ہیں۔ تاہم آئندہ انتخابات کے دوران اس پر عمل درآمد کے حوالے سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
ان صدارتی حکم ناموں کی مدد سے آئندہ انتخابات کی تیاری کی جا رہی ہے جس کے مطابق بیرونِ ملک مقیم 90 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل جائے گا۔
قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی طرف سے الیکشن اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بجائے آرڈیننس جاری کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
آرڈیننس کب تک مؤثر رہیں گے؟
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آٹھ مئی کو آئین کے آرٹیکل 83 کے تحت الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری کیا۔
نئے قانون کے تحت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تیکنیکی مدد سے عام انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنا ممکن ہوگا۔
ترمیم کی دفعہ 103 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کا پابند کیا گیا ہے۔
اس آرڈیننس نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ووٹنگ کی سہولتوں، الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیو میٹرک تصدیق کی مشینوں کے لیے پائلٹ اسکیموں سے متعلق دفعات کو تبدیل کردیا ہے۔
آرڈیننس کے اجرا کے بعد اس قانون کو باقاعدہ پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہوگا جس کے لیے حکومت کے پاس 120 دن کا وقت ہوگا۔ حکومت کو مزید 120 دن کا وقت بھی مل سکتا ہے لیکن اس کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہوگی۔ تاہم پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملنے کی صورت میں یہ آرڈینس غیر مؤثر ہو جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کا کردار
حکومت نے آرڈیننس جاری کرکے ’نادرا‘ کو ووٹنگ فہرستیں تیار کرنے کا اختیار دیا ہے۔ نادرا یہ فہرستیں تیار کرکے الیکشن کمیشن کو فراہم کرے گا۔
اس بارے میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ یہ آرڈیننس آئین سے متصادم ہے کیوں کہ آئین میں الیکشن کمیشن کو فہرستیں ترتیب دینے کا کہا گیا ہے۔
کنور دلشاد کے مطابق اس آرڈیننس پر ابھی اسمبلی میں بحث ہو گی اور الیکشن کمیشن بھی اپنے اجلاس کے بعد اس بارے میں اپنا ردِعمل ظاہر کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ "میری معلومات کے مطابق الیکشن کمیشن کے لیے آئندہ آنے والے انتخابات میں ان دونوں آرڈیننسز کے مطابق انتخابات کروانا ممکن نہیں ہو گا۔"
سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق کیسے ملے گا؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ تھا تاہم اس پر عمل درآمد اس کے لیے آسان نہیں ہو گا۔
ماہرین کے بقول ووٹ کا حق دینے کے لیے سب سے اہم ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے جس نے اس کا طریقہ طے کرنا ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے اب تک کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
'سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے ضروری ہے'
کنور دلشاد کہتے ہیں کہ صدارتی آرڈیننس کے اجرا سے الیکشن 2023ء کے حوالے سے تیاریاں تو کی جارہی ہیں لیکن اس سسٹم پر جب تک تمام جماعتوں کا اتفاق نہیں ہو جاتا تب تک اس کی شفافیت اور رازداری پر سوالیہ نشان اٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کمپیوٹرائزڈ نظام اگر 'آر ٹی ایس' کی طرح ناکام ہو گیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہنگامی طور پر متبادل نظام نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں قومی انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کرنا پڑیں گے۔
خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے نتائج کے لیے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم 'آر ٹی ایس' نامی سافٹ ویئر متعارف کرایا گیا تھا جس میں الیکشن کی شب خرابی کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔
کنور دلشاد کے مطابق مذکورہ آرڈیننس میں سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے بیلٹ کا حق دیا گیا ہے جس سے رازداری کے اصول پامال ہوں گے۔ انٹرنیٹ بیلٹ کے طریقہ کار ہونے کی صورت میں ووٹنگ ایپ یا پھر ویب سائٹ ہیک ہو جانے کے امکانات موجود ہیں اور اس صورت میں نتائج مشکوک ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں موجود لاکھوں پاکستانیوں کو بیلٹ کے ذریعے ووٹ کا حق دینے کے لیے حکومت پاکستان کو 50 ارب روپے تک کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔
’پائلٹ پراجیکٹ ناکام رہا‘
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے آئندہ انتخابات کے بارے میں ایک سوال پر کنوردلشاد احمد کا کہنا تھا کہ ان مشینوں کے استعمال سے دھاندلی پر قابو پانا ناممکن ہے۔
ان کے بقول یہ عین ممکن ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایسی چپ یا پھر ایسا کوڈ رکھ دیا جائے جس کے ذریعے ووٹ کسی بھی دوسرے امیدوار کو منتقل کیے جانے کا احتمال ہو۔ لہذٰا ایسے نظام کی افادیت پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی کہ تمام تر مشینیں مکمل طور پر محفوظ ہیں اور ان میں کوئی ایسی چیز استعمال نہیں کی گئی۔ ایسی صورتِ حال میں ہارنے والی پارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ اس سسٹم پر عدم اعتماد کرنے سے ایک اور انتخابی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔
کنوردلشاد نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کو جو ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ہے وہ تو نو سال پرانی منصوبہ بندی تھی اور اس کا پائلٹ پراجیکٹ بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ کے ذریعے بیلٹنگ پہلے ہی پائلٹ پراجیکٹ میں ناکام ہوچکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
من پسند نتائج کے ممکنہ الزامات
کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ ان مشینوں کے استعمال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی بیش تر آبادی تعلیم کی کمی کی وجہ سے جدید مشینوں کا استعمال نہیں جانتی۔ اس لیے انہیں الیکشن کمیشن کے عملے کی مدد حاصل کرنا پڑے گی اور اگر کسی مرحلے پر عملہ ہی اپنی پسندیدہ جماعت کے لیے ووٹ ڈلواتا رہا تو پورے سسٹم پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان مشینوں کی موجودگی میں ایک جماعت دوسری جماعت پر من پسند نتائج حاصل کرنے کے الزامات لگا سکتی ہے۔
کنور دلشاد کے مطابق اب تک ان مشینوں پر اخراجات کا درست تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔ تاہم اندازہ ہے کہ ان پر ایک کھرب روپے کے اخراجات آ سکتے ہیں۔
قانون سازی کے بجائے آرڈیننس کیوں؟
پاکستان میں جمہوریت، گورننس اور پبلک پالیسی پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں انتخابی اصلاحات کے لیے ضروری تھا کہ اپوزیشن سے بات کی جاتی لیکن صرف آرڈیننس جاری کر دینے سے اختلافات مزید بڑھ چکے ہیں۔
ان کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اگر اپوزیشن سے بات نہیں بھی کی جاتی تو اس پر کم سے کم پارلیمنٹ میں بحث تو ہونی چاہیے۔
SEE ALSO: حکومت کا الیکشن ایکٹ میں تبدیلی کا فیصلہ، معاملہ ہے کیا؟
حکومتی ترجمان فواد چوہدری نے منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے۔ اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دینا چاہتیں۔
فواد چوہدری ماضی میں بطور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے بہت متحرک رہے اور اس بارے میں وزیرِ اعظم کو بریفنگ بھی دے چکے ہیں۔
فواد چوہدری کی طرف سے پیش کی جانے والی مشین 2011 میں ’کامسیٹس یونیورسٹی‘ کی ٹیم نے بنائی تھی لیکن 11 سال پرانی اس مشین پر اس وقت بھی اعتراض کیا گیا اور اب بھی اسے کسی سیاسی جماعت کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کام حکومت یا پارلیمان کا نہیں ہے۔ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے اور کمیشن کو معلوم ہے کہ انہوں نے کیا طریقۂ کار اختیار کرنا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کا ووٹ اور نمائندگی
اس بارے میں احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اب تک نمائندگی کا کوئی سوال سامنے نہیں آیا، صرف ووٹ کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ ووٹ کا حق نہیں ہے۔ وہ پاکستان آکر اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے اس حوالے سے جب آزمائشی بنیادوں پر کام کیا جارہا تھا تو صرف ایک فی صد لوگوں نے خود کو رجسٹر کروایا۔
انہوں ںے کہا کہ اس کے لیے ای میل ایڈریس کی ضرورت ہو گی جو بیرون ملک مقیم ہمارے غریب مزدور بھائیوں کے پاس ہیں ہی نہیں۔
احمد بلال نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ حکومت اس قدر عجلت کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے۔ لوگوں کے اعتماد کے لیے مختلف مراحل میں ایسا کام کیا جاتا ہے۔ بھارت میں 22 سال کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ وہاں 1982 میں یہ کام شروع ہوا اور 2004 میں تمام انتخابات اس مشین کے ذریعے ہوئے۔ پہلے صرف ایک نشست، اس کے بعد ایک اسمبلی، پھر دو اسمبلیاں اور 22 سال بعد تمام حلقوں میں یہ مشین استعمال ہوئی۔