آزادی صحافت کو نئے خطرات درپیش ہیں۔ بدھ کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا بین الاقوامی دِن منایا جا رہا ہے، جس مناسبت سے ’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ نے آزادی صحافت کے لیے نقصاندہ حلقوں کی فہرست جاری کی ہے، جس کے مطابق ’’ترک صدر اردوان، سعودی عرب کے شاہ سلمان اور داعش کا شدت پسند گروپ صحافتی آزادی کی تباہی‘‘ میں، مبینہ طور پر حصہ دار ہیں۔
’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ نے ایک منفرد ’آن لائن گیلری‘ شائع کی ہے جس میں35 سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں، میلشیاؤں اور جرائم پیشہ تنظیموں کی فہرست درج ہے، جس کا عنوان ’’شکار کا اجازت نامہ‘‘ ہے، اور تفصیل درج ہے کہ میڈیا کا کس حد تک ’’شکار‘‘ کیا جاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کچھ رہنما ونزویلا کے نلولس مدورو جیسے ہیں، جو پریس پر ’’سوچی سمجھی سینسرشپ لگاتے اور معاشی طور پر گلا گھونٹتے ہیں‘‘، جب کہ داعش اور افریقہ کے کئی ایک مطلق العنانوں پر سریع الزام ہے کہ وہ صحافیوں کے دانستہ قتل کے حربوں پر اتر آتے ہیں۔
لیکن، فی الواقع قتل کے علاوہ ’’ہلاکتوں کی فہرست‘‘میں مبینہ ’’غارت گر‘‘ کی تفصیل کے علاوہ دستاویزات بھی شامل ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ اُنھوں نے ذرائع ابلاغ کے کتنے اداروں کو بند کروایا۔ مثال کے طور پر، جولائی میں ناکام بغاوت کے بعد ترکی میں ہنگامی حالات کے اعلان سے صدر رجب طیب ارودان کو اختیار ملا جس کے تحت اُنھوں نے 100 سے زائد اخبارات، رسالوں، ٹیلی ویژن چینلوں، اور ریڈیو اسٹیشنوں کو بند کردیا، جس کے علاوہ 200 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔
چین کے ژی جِن پنگ بھی فہرست میں شامل ہیں، جنھیں سنہ 2013میں ’’غارت گر‘‘ کا لقب دیا گیا۔ ’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق، اِس وقت چین میں 100 صحافی اور بلاگر گرفتار ہیں، اور یوں، ’’چین میڈیا اہل کاروں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا قیدخانہ ہے‘‘۔
حالانکہ ’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ کی فہرست میں روس میں قید صرف چار صحافیوں کے نام دیے گئے ہیں، سنہ 2000 سے ولادیمیر پیوٹن بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اب تک روس میں موجودہ اظہارِ آزادی اپنی نچلی ترین سطح پر ہے۔
گذشتہ سال، برونڈی کے پیرے نکورنزیزا وہ واحد مبینہ ’’غارت گر‘‘ تھے، جنھوں نے مئی 2015ء کی ناکام بغاوت کے بعد تمام غیر جانبدار ابلاغ عامہ کے اداروں پر بندش لگائی اور ملک کے 100سے زائد صحافیوں کو ملک بدر کیا۔
غیر سرکاری تنظیمیں، جیسا کہ صومالیہ کی ’الشباب‘، جس نے ’’کئی درجن‘‘ صحافیوں کو قتل کیا ہے؛ میکسیکو میں ’لوس زینتاس‘ کے جرائم پیشہ ٹولے پر الزام ہے کہ اُس نے درجنوں صحافیوں کو ہلاک اور لاپتا کیا؛ ادھر، بنگلہ دیش میں سنہ 2015 میں چال بلاگرز کو قتل کیا گیا، جس کا الزام ’انصاراللہ بنگلہ‘ کے قدامت پسند تحریک کے دستے پر عائد کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں پر کم از کم تین صحافیوں کے قتل کا الزام لگایا گیا ہے؛ جب کہ، بتایا گیا ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں نے صنعا میں ابلاغ عامہ کے کم از کم 13 کارکنان کو یرغمال بنایا؛ سال 2016 کے دوران طالبان نے سات صحافیوں کو قتل کیا؛ شام میں داعش نے کم از کم تین صحافیوں کے سر قلم کیے؛ جب کہ عراق اور شام میں درجنوں مزید صحافیوں اور میڈیا کارکنان کو قتل کیا گیا ہے۔
’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ کی سکریٹری جنرل، کرسٹوف دلور کے الفاظ میں’’یہ لٹیرے میڈیا اور آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے اور صحافیوں کے خلاف بدترین زیادیوں میں پیش پیش رہے ہیں، جنھیں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ اس غیرموزوں صورت حال کا مداوا یہی ہوگا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ خصوصی نمائندہ تعینات کرے‘‘۔
اقوام متحدہ کا تسلیم کردہ، صحافیوں کے خلاف جرائم کی جوابدہی سے استثنیٰ کے خلاف آواز بلند کرنے کا بین الاقوامی دِن ہر سال دو نومبر کو منایا جاتا ہے۔
اِس موقع پر اپنے بیان میں، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے کہا ہے کہ ’’میں تمام میڈیا کارکنان کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں جو سچ بولنے کی پاداش میں اپنی زندگی داؤ پر لگاتے ہیں۔ اور میں صحافیوں پر حملوں، اُنھیں ہراساں یا ہلاک کیے جانے کے خلاف انصاف کی فوری فراہمی کا مطالبہ کرتا ہوں‘‘۔