مصری ٹیلی وژ ن کی ایک فوٹیج اور فلسطینی اسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق اسرائیل کی بمباری سے متاثرہ فلسطینی محصور شہر غزہ کےالشفاا سپتال سے قبل از وقت پیدا ہونے والے 28 بچوں کے ایک گروپ کو پیر کے روز علاج کے لیے مصر بھیج دیا گیا ہے۔
مصر کی جانب کی رفح سرحد پر طبی عملے کو ایمبولینسوں کے اندر سے ننھے بچوں کو احتیاط سے اٹھاتے اور موبائل انکیو بیٹرز میں رکھتے ہوئے دیکھا گیا ۔ جنہیں پھر ایک پاکنگ لاٹ کے پار کھڑی دوسری ایمبولینسوں کی طرف لے جایا گیا۔
قبل ازوقت پیدا ہونے والے یہ بچے جنہیں مصر لے جانے سے پہلے محصور غزہ کے الشفا اسپتا ل سے جنوبی غزہ کے ایک میٹرنیٹی اسپتال متنقل کیا گیا تھا، صرف نیپیز اور سبز ٹوپیاں پہنے ہوئےتھے۔
جنوبی غزہ کے علاقے رفح کے الہلال العمیراتی ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے یونٹ کے سر براہ محمد سلامہ نے کہا کہ جب یہ بچے الشفا اسپتال سے میرے پاس پہنچے تو ان کی حالت بہت نازک تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ غذائیت کی قلت میں مبتلا تھے ، کچھ ڈی ہائیڈریشن اور کچھ درجہ حرارت کی کمی میں مبتلا تھے ۔ ہم نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ان کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ۔
سلامہ نے کہا کہ کچھ بچے اپنی ماؤں کے ساتھ تھے جب کہ دوسرے جن کے ساتھ ان کے رشتے دار نہیں تھے ،ان کے ساتھ طبی عملہ موجود تھا ۔ کچھ بچے جن کی مائیں یا تو انتقال کر گئی تھیں یا لاپتہ تھیں ، ان کی منتقلی کے اجازت ناموں پر دوسر ے رششتےداروں نے دستخط کیے تھے ۔
رفح گزرگاہ سے مصری حکومت کی ایک فوٹیج میں انکیوبیٹرز کو ایمبولینسوں میں رکھتے اور ایک ڈاکٹر کو ایک بچے کے پاؤں میں ایک اوکسی میٹر لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
آٹھ بچوں کا انتقال
ان نو زائیدہ بچوں پر عالمی توجہ آٹھ روز قبل اس وقت سے مبذول ہوئی ہے جب الشفا ہسپتال کے بستروں پر پہلو بہ پہلو لیٹے ہوئے ان بچوں کی تصاویر اس کے بعد منظر عام پر آئیں جب غزہ شہر میں اسرائیلی فوجی حملے کے دوران بجلی کی قلت کے باعث ان کے انکیو بیٹرز کے سوئچ آف کر دیے گیے تھے ۔
جب ڈاکٹروں نے ان بچوں کی حالت کے بارے میں خبردار کیا تھا ، اس وقت ان کی تعداد 39 تھی جن میں سے اب تک آٹھ بچوں کا انتقال ہو چکا ہے۔
ڈاکٹروں نے کہا تھا الشفا اسپتال میں ان کے لیے حالات انتہائی خطرناک تھے ۔ ان کی انفیکشن پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تھا، ان کے لیے اسٹریلائزیشن کے آلات ناکافی تھی ، پینے کے صاف پانی اور ادویات کا فقدا ن تھا ۔ اور ان کے درجہ حرارت اور نمی کے درجوں کو ان کی انفرادی ضروریات کے مطابق کنٹرول کرنے کا کوئی بندو بست نہیں تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق الشفا اسپتال پر اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور بجلی، پانی ، ادویات اور دوسری بنیادی ضروریات کی کمی کی وجہ سے وہاں اب طبی دیکھ بھال فراہم نہیں کی جاسکتی ۔
یہ جنگ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس جنگجووں کے اچانک حملے کے بعد سے شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق بچوں اور نوزائیدہ بچوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 کو یرغمال بنایا گیا تھا ۔
اسرائیل نے اس کے جواب میں غزہ پر بڑے پیمانے پر بمباری اور زمینی کارروائی کی ہے ۔ حماس کے کنٹرول والے محصور شہر کے صحت کے عہدے دارو ں کے مطابق اب تک کم از کم 13 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ساڑھے پانچ ہزار بچے شامل ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق غزہ کے تین چوتھائی لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل کی غزہ کے جنوبی علاقوں پر بمباری، 58 افراد ہلاکیکم نومبر سے رفح کراسنگ سے محدود انخلا کا سلسلہ جاری ہے جو غزہ میں داخلے اور باہر جانے کا ایسا واحد راستہ ہے جس کی سرحد اسرائیل سے نہیں ملتی۔ انخلا کا یہ سلسلہ متعدد بار غزہ پر بمباریوں کے باعث معطل ہو چکا ہے ۔
مصر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ، اب تک 6700 غیر ملکی ، دوہر ی شہریت کے حامل افراد اور ان کے اہل خانہ کو وہاں سے نکالا جا چکا ہے ۔ اس تنازعے میں زخمی شہریوں سمیت 230 سے زیادہ لوگوں کا طبی علاج کے لیے جب کہ کینسر کے کچھ مریضوں کو خصوصی علاج کے لیے فضائی ذریعے سے وہاں سے لے جایا گیا ہے۔
اسرائیل اور مصر نے 2007 میں جب سے حماس نے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالا ہے ، شہر کی سخت ناکہ بندی کر رکھی ہے اور سرحد کے پار لوگوں ا ور سامان کی نقل و حرکت پر سخت کنٹرول کر رکھا ہے ۔
مصر نے غزہ کے شہریوں کی بڑے پیمانے پر کسی بھی نقل مکانی کو یہ کہتے ہوئے بار بار مسترد کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر رہنا چاہئے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے