صدرکا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب، 438 ارکان میں سے صرف 16موجود

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی, فائل فوٹو

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تو انہیں 438 کے ایوان میں سے محض 16 اراکین نے ہی سنا۔

دلچسپ طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین سینیٹ بھی اجتماعی طور پر غیر حاضر رہے جس سے صدر عارف علوی کا بنیادی طور پر تعلق ہے۔ پارٹی کے بیشتر اراکین قومی اسمبلی اپنے استعفے جمع کروانے کے باعث شریک نہیں ہوئے۔

پانچویں پارلیمانی سال کے آغاز کے لئے صدر علوی خطاب کے لئے ایوان میں پہنچے تو اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ان کا استقبال کیا تاہم ان کے خطاب کے ساتھ ہی حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے اراکین اسمبلی واک آوٹ کرگئے۔

ماضی میں حزب اختلاف کی جماعتیں صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر ایوان سے واک آؤٹ تو کیا کرتی تھیں تاہم حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے حکومتی جماعت کے اراکین واک آؤٹ کرگئے۔

تو ایسے میں پی ٹی آئی کے بعض ناراض اراکین جنہوں نے جماعت کے کہنے پر استعفے جمع نہیں کروائے تھے، اور حکومتی اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور ایک آزاد رکن علی نواز شاہ نے ہی صدر علوی کا خطاب سنا۔

SEE ALSO: آرٹیکل 'باسٹھ ون ایف' کالا قانون ہے تو تاحیات نااہل ہونے والوں کا اب کیا ہوگا؟


ان کے خطاب کے دوران ایوان میں موجود اراکین کی تعداد 12 سے 16 کے درمیان رہی۔

حزب اختلاف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے عارف علوی کے خطاب کے پرسکون آغاز کے ساتھ ہی قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے بلند آواز میں پکارنا شروع کردیا کہ 'صدر صاحب اس اسمبلی کو آپ نے توڑا (تحلیل کی) تھا تو اس سے خطاب کرنے کیوں چلے آئے'۔

راجہ ریاض کی بات پر وزیر دفاع خواجہ آصف بولے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، جس اسمبلی کو توڑا اسی سے خطاب کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق نے رکن اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر نہ کئے جانے پر احتجاج کیا اور پلے کارڈ اٹھا کر اسپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئے۔

صدر علوی اراکین اسمبلی کی ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے خطاب کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ حکومتی بنچوں پر سے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔

SEE ALSO: پی ٹی آئی کا اسمبلی میں واپسی کا عندیہ؛ 'عمران خان اب یو ٹرن لے رہے ہیں'

یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 56 (3) کے تحت پارلیمانی سال کے آغاز کے لیے صدارتی خطاب لازمی ہے جس کے بعد موجودہ قومی اسمبلی کے پانچویں پارلیمانی سال کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر حکومت کو حزب اختلاف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر علوی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دینا پڑی۔

سیاسی تقسیم ختم کریں، الیکشن پر اختلاف کو مشاورت سے حل کریں

صدر عارف علوی نے ملک میں جاری سیاسی تقسیم کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا :

’’میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے سب سے بہترین حل منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے‘‘

صدر علوی نے کہا کہ سیاسی تقسیم کو اس ملک میں ختم کریں اور ضد کو چھوڑے بغیر پولرائزیشن ختم نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سال انتخابات کا سال ہے تاہم انتخابات کا منعقد کرانا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔

صدر علوی نے کہا کہ "میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرلیں۔"

اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے بلند آواز میں کہا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، اس پر صدر علوی نے توقف کیا اور کہا کہ "مناسب بات ہے لیکن بات کرکے طے کرلیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی قیادت کے مابین اس معاملے پر چند مہینے کا اختلاف ہے جس کا حل باہمی مشاورت سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

SEE ALSO: اسلام آباد ہائی کورٹ: 'سیاسی جھگڑوں کو عدالت نہیں پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے'


خیال رہے کہ اکتوبر میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے استعفے دے رکھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری عام انتخابات کروائے جائیں۔

آڈیو لیک کی تحقیقات حکومت کا اچھا اقدام ہے!

صدر علوی نےحالیہ دنوں میں سیاسی و حکومتی رہنماؤں کی سامنے آنے والی آڈیو لیکس کے حوالے سے کہا کہ یہ ایک انتہائی سنگین پیش رفت ہے اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان آڈیو لیکس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ فریقین میں سے کسی ایک کی رضامندی کے بغیر فرد یا افراد کے درمیان نجی گفتگو کو عام کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے۔ ’یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو اہم سرکاری دفاتر میں کھل کر کوئی بھی بات نہیں کر سکے گا۔

حکومت کی امریکہ سے تعلقات بہتری کی کاوشیں قابل تعریف ہیں!

خارجہ پالیسی کے حوالے سے حکومت کی راہنمائی کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ امریکہ اور یورپ سے تعلقات ہمارے لیے سود مند ہیں اور موجودہ حکومت نے امریکا سے تعلقات کوبہتر بنانے کے لیے جو کاوشیں کیں وہ قابل تعریف ہیں۔

ہمسایہ ملک افغانستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور افغانستان میں جلد وسیع البنیاد حکومت بن جائے تو اچھا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ، جنوبی ایشیا سے تعلقات میں توازن قائم رکھنا چاہتا ہے، تجزیہ کار

انہوں نے کہا کہ طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور وہ یہ کہتے ہیں کہ دو طرفہ مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔

کشمیر اور بھارت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے ساتھ ہم کل بھی تھے اور آج بھی ہیں اور رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔

صدر علوی نے کہا کہ پاکستان میں اگرچہ سیاسی تقسیم پائی جاتی ہے لیکن ہم مذہبی تقسیم سے نکل چکے ہیں، لیکن بھارت مذہبی انتشار کی آگ سے کھیل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں ہندوتوا نظریے کے باعث بڑھتا اسلاموفوبیا نفرتیں پیدا کر رہا ہے۔

صدر علوی نے چین سے پاکستان کی دوستی کا بھی ذکر کیا لیکن اپنے خطاب میں مسئلہ فلسطین اور ایران پر کوئی گفتگو نہ کی۔

صدر علوی نے مولانا جلال الدین رومی کے اشعار سے اپنے خطاب کا اختتام کیا اور اراکین اسمبلی کا شکریہ ادا کرنے کے الفاظ ادا کرتے ہوئے ایوان کی طرف خالی کرسیوں کو دیکھتے ہوئے ہنس دیئے اور کہا کہ "آپ جتنے یہاں موجود ہیں ان کا بہت شکریہ۔"