پاکستان کے وفاقی ادارے قومی احتساب بیورو (نیب)کے قوانین میں ترامیم سے سیاست دانوں اور دیگر شخصیات کو فائدہ (ریلیف) ملنا شروع ہو گیا ہے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت ملنے والے فوائد میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اِس کے اتحادی جماعت کے افراد سرِ فہرست ہیں۔
قوانین میں ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں نے سیاسی شخصیات سمیت مختلف کاروباری شخصیات، سابق بیوروکریٹس اور دیگر سابق سرکاری افسران کے خلاف مبینہ خوردبرد کے زیرِ سماعت مقدمات واپس نیب کو بھیج دیے ہیں۔ جن میں مضاربہ کیسز، فراڈ کیسز، ہاؤسنگ اسکیموں کے خلاف کیسز اور دیگر کیس شامل ہیں۔
چند روز قبل ہی احتساب عدالت نے نیب قوانین میں ترمیم کے باعث رمضان شوگر ملز کیس واپس نیب کو بھجوا دیا ہے اور کہا کہ اب یہ احتساب عدالت کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا۔ اِس کیس میں ملک کے موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز پر الزام تھا کہ چنیوٹ میں سرکاری خزانے سے شوگر ملز کا گندہ نالہ بنوایا گیا ہے۔
اِسی طرح مختلف نیب عدالتوں نے احسن اقبال کے خلاف اسٹیڈیم تعمیر میں مبینہ اسکینڈل، پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں مبینہ خورد برد، یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ ریفرنس، سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی کے خلاف نیب ریفرنس اور موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور منصوبے کے ریفرنسوں کو واپس بھجوا دیا ہے۔
ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان حکمران اتحاد پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چند مخصوص سیاسی شخصٰیات کو 'این آر او' دیا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم کے بارے میں ایک عمومی رائے تو یہی ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ موجودہ حکمران اتحاد کو ہو رہا ہے۔لیکن اس کے تکنیکی پہلوؤں پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں پاکستان میں جب وقت تبدیل ہوتا ہے تو سیاست بھی تبدیل ہو جاتی ہے اور اسی کے ساتھ سیاست دانوں کا رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ان کے بقول پاکستان میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے اور اب بھی یہی ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو میں پہلے مسلم لیگ ( ن) اور پی ڈی ایم کے لوگوں کے خلاف ریفرنس بنتے تھے اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد اب یہ مقدمات ختم ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات بنے اور جب وقت بدلاتو سارے مقدمات اور ریفرنس ختم ہو گئے۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جس کی حکومت ہوتی ہے اُس کے اثرات مقدمات اور اداروں پر پڑتے ہیں۔
نیب قانون میں کیا ترامیم کی گئیں؟
رواں برس پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نیب ترمیمی بل 2022 کے بعد اب احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار صدر کے بجائے وفاقی حکومت کے پاس چلا گیا ہے۔ اسی طرح پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی جا سکے گی۔
نیب قوانین میں ترامیم کے بعد نیب پچاس کروڑ روپے سے کم خوردبرد کے کیسوں کی تحقیقات نہیں کرے گا اور چیئرمین نیب فردِ جرم عائد ہونے سے قبل ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے۔ ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جائے گی جب کہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت سے رجوع کر سکے۔
اِسی طرح نیب قانون کے سیکشن 16 کے تحت جہاں جرم ہو گا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ ترامیم کے تحت نیب کو عدالتِ عالیہ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔
'جو کیسز واپس ہو رہے ہیں وہ دوبارہ بھی کھل سکتے ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں جو مقدمات احتساب عدالتوں کی جانب سے نیب کو واپس بھیجے جا رہے ہیں انہیں قانون میں نئی ترمیم کے بعد جب آئندہ کوئی حکومت آئے گی تو ہو سکتا ہے کہ یہ کیسز دوبارہ کھول دیے جائیں۔
نیب مقدمات کی واپسی پر عمران خان کی تنقید پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں عمران خان جب وزیرِ اعظم تھے تو ان کے دور میں قریبی افراد کو نیب مقدمات میں فائدہ پہنچایا گیا اور شہباز شریف حکومت میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ان کے بقول، "عمران خان کے دورِ حکومت میں سابق چیئرمین نیب کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد نیب ذرائع بتاتے ہیں کہ نیب سمجھوتے کرنے لگا تھا۔ جس کے بعد تحریکِ انصاف کے خلاف 'بی آر ٹی' سمیت دیگر مقدمات میں تحقیقات ختم کی گئیں یا بند کر دی گئیں۔
واضح رہے کہ سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی خاتون سے گفتگو کی مبینہ آڈیو سامنے آنے کے بعد ادارے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چیئرمین نیب کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے نیب ترامیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نیب سے متعلق یہ شکایات عام تھیں کہ دورانِ تفتیش ملزمان کا ریمانڈ نہیں ملتا اور ضمانت نہیں ہوتی جب کہ بارِ ثبوت بھی ملزم کے ہی حصے میں آتا تھاجو دنیا بھر کے انصاف کے اصول وضوابط کے خلاف تھے۔ اس لیے اس قانون میں تبدیلی ایک نہ ایک دن آنا ہی تھی۔
نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے بعد سیاست دانوں کے ملنے والے ریلیف پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم سے ایسے افراد کو بھی فائدہ مل رہا ہے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
خیال رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب کا ادارہ کرپشن کے خاتمے کے لیے قائم کیا گیا تھا جس کے پہلے دو سربراہ جنرل ریٹائرڈ امجد اور جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز تھے۔ تاہم ماضی میں یہ ادارہ سیاسی مقدمات قائم کرنے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
مظہر عباس کے خیال میں ملک میں جب سیاسی انجینئرنگ ہوتی ہے تو نیب کا ادارہ استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔
ان کے بقول 1999 میں نیب کے قیام کے بعد شروع میں تو بہت سے تاجروں اور صنعت کاروں پر بھی مقدمات بنائے گئے لیکن 2002 کے انتخابات میں نیب کا مکمل سیاسی استعمال ہوا۔ جس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نیب مقدمات تو بناتا رہا اور لوگوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن کرپشن گھٹنے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئی۔