پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ، انتظامیہ اور سیاسی رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ عام انتخابات وقت پر ہوں اور الیکشن کو شفاف و قابلِ اعتماد بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو 'لیول پلیئنگ فیلڈ' مہیا ہونی چاہیے۔
ایوانِ صدر میں وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے بعد انہیں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات اعلان کردہ تاریخ آٹھ فروری 2024 کو نہیں ہوں گے۔
صدر علوی نے کہا کہ انتخابات کو شفاف بنانے اور تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں انتخابی ماحول کی فراہمی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ اس حوالے سے صرف توجہ دلا سکتے ہیں۔
صدر علوی کے بقول ان کے ایک خط کے جواب میں نگراں حکومت نے عوامی سطح پر یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو 'لیول پلیئنگ فیلڈ' مہیا کی جائے گی۔ البتہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں لے سکتے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ رواں برس اگست میں قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے بعد سے پاکستان میں نگراں حکومت قائم ہے۔ رواں ماہ ہی سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو صدر عارف علوی سے ملاقات کر کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کی ہدایت کی تھی جس کے بعد آٹھ فروری کو الیکشن کرانے پر اتفاق ہوا تھا۔
نگراں حکومت کے اس بیان کے جواب میں کہ صدر کسی جماعت کے ترجمان نہ بنیں، صدر عارف علوی نے کہا کہ بحیثیت صدر وہ ہر پاکستانی کے ترجمان ہیں اور جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوگا وہ اس کی عکاسی کرتے رہیں گے۔
صدر علوی کی جانب سے نگراں وزیرِ اعظم کو سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے سے متعلق لکھے گئے خط کے جواب میں نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا تھا کہ "صدر کسی ایک جماعت کے ترجمان نہ بنیں۔"
عمران خان کی انتخابات میں شمولیت
انتخابات میں بڑی جماعت کے سربراہ کی شمولیت کے سوال کے جواب میں صدر علوی نے کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں اور بحیثیت صدر وہ عدلیہ پر اعتماد رکھتے ہیں۔
عمران خان اور فوج کے درمیان مصالحت میں ناکامی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس ناکامی کی بہت سی معروضی وجوہات تھیں جس کی تفصیل میں وہ جانا نہیں چاہتے۔
عارف علوی نے امید ظاہر کی کہ عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آئے گا کیوں کہ الیکشن کے نتیجے میں عوام کی رائے آجاتی ہے اور حکومت اس کے مطابق فیصلے لیتی ہے۔
اپنے دور میں تین مختلف وزرائے اعظم کے بارے میں اپنے تجربے کا اظہار کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ وزیرِ اعظم سے زیادہ تر سرکاری امور کے سلسلے میں ہی رابطہ ہوتا ہے۔ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو ان سے بھی ذاتی معاملات پر کم ہی بات ہوتی تھی اور یہی صورتِ حال شہباز شریف اور انوار الحق کاکڑ کے ساتھ بھی رہی ہے۔
نواز شریف سے حلف لیں گے؟
اس سوال پر کہ اگر نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوجاتے ہیں تو کیا آپ ان سے حلف لیں گے؟ کے جواب میں صدر علوی نے کہا کہ یہ ان کے عہدے کا تقاضا ہے اور جو بھی منتخب ہو کر آئے گا وہ اس سے حلف لینے کی ذمہ داری کو پورا کریں گے۔
انتخابات کے قریب آتے ہی ایک مرتبہ پھر 'کنگس پارٹی' کی باز گشت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر اپنے خیال کا اظہار نہیں کریں گے کیوں کہ اس سے صدر کا منصب متنازع ہوجاتا ہے۔
SEE ALSO: 'لیول پلیئنگ فیلڈ' نہ ملنے کی شکایات؛ کیا مسلم لیگ (ن) کو زیادہ 'اہمیت' مل رہی ہے؟صدر علوی نے کہا کہ پاکستان میں صحافت آزاد ہے اور اخبارات و ٹی وی چینلز کو دیکھ کر لوگ اپنی رائے بنا سکتے ہیں۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود ان کا بحثیت صدر اپنی آئینی مدت مکمل کرنا ملک میں استحکام کی نشاندہی کرتا ہے اور وہ ملک کے چوتھے صدر ہیں جو اپنی آئینی مدت مکمل کررہے ہیں۔
'تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا'
صدر عارف علوی نے نو مئی واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت پر کہا کہ وہ قبل از وقت رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے بقول، یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے لہذا وہ اس پر تبصرے سے گریز کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نو مئی واقعات کی مذمت کر چکے ہیں اور ہمیشہ اس عمل پر تنقید کرتے رہیں گے لیکن حکومتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ احتجاج پرتشدد رنگ اختیار کرے۔
"ایوان صدر میں نہ ہوتا تو جیل میں ہوتا" اپنے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ وہ سیاسی طور پر سرگرم رہے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں وہ مایوس ہوتے۔ ان کے بقول، اپنی مایوسی کے اظہار میں وہ سڑکوں پر ہوتے اور نتیجتاً جیل جاتے۔
'افغانوں کی واپسی کے فیصلے پر نظر ثانی ہو سکتی ہے'
صدر عارف علوی نے کہا کہ پناہ گزینوں کا بوجھ بانٹنے میں دنیا نے وعدوں کے باوجود پاکستان سے تعاون نہیں کیا، ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ مناسب اقدام ہے۔ ان کے بقول پاکستان نے چالیس سال تک افغانوں کو پناہ دی مگر ملک کی معیشت اب پناہ گزینوں کا بوجھ مزید اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین ہمارے ہمسائے اور مسلمان بھائی ہیں لیکن ان کی وجہ سے پاکستان کی نہ صرف معیشت اور روزگار کے مواقع بلکہ مقامی کلچر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سے اب تک تین لاکھ افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے اداروں نے غیر ملکی باشندوں کی بے دخلی کے اقدام پر تنقید کی ہے اور پاکستان سے اس پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ افغانوں کی واپسی کے فیصلے پر دنیا اور کابل حکومت سے بات چیت کے نتیجے میں نظر ثانی ہوسکتی ہے لیکن یہ فیصلہ وہی فورم کرے گا جہاں اس کا فیصلہ ہوا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدرِ پاکستان کے مطابق افغان طالبان سے پاکستان کی مستقل شکایت رہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی دراندازی روکیں لیکن یقین دہانیوں کے باوجود ہمسایہ ملک نے اس پر خاطر خواہ عمل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے انہیں بتایا کہ پاکستان کے تحفظات کے بارے افغان طالبان مسلسل بات چیت میں ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے شواہد بھی مہیا کیے گئے ہیں۔
عارف علوی نے کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ افغان طالبان پاکستان کے تحفطات دور کیوں نہیں کر پا رہے ہیں۔ البتہ سرحدی اور دیگر امور کے حوالے سے دفترِ خارجہ اور متعلقہ ادارے مسلسل افغان قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کی میزبانی میں کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں اور اس دوران عارضی جنگ بندی بھی ہوئی تاہم یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے کہ ان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
'پاکستان اپنے قیام کی تحریک سے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے'
غزہ کی موجودہ صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے صدرِ پاکستان نے کہا کہ پاکستان اپنے قیام سے پہلے سے فلسطینیوں کی حمایت کر رہا ہے اور موجودہ صورتِ حال پر اسلام آباد نے عالمی فورمز پر اپنے مؤقف کو بھرپور دھرایا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل صرف دو ریاستی منصوبہ ہے جس پر کئی معاہدوں کے باوجود عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ہفتے اسلامی تعاون تنظیم کے ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ اجلاس میں شریک ممالک مختلف آراء کے ساتھ آئے لیکن سب نے جنگ بندی اور دو ریاستی حل پر زور دیا۔